پیر‬‮ ، 08 دسمبر‬‮ 2025 

افغانستان میں طالبان چین کی سرحد تک پہنچ گئے امریکی اخبار کا تہلکہ خیز دعویٰ

datetime 11  جولائی  2021 |

کابل(این این آئی )افغانستان کے ایک تہائی حصے پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد رواں ہفتے طالبان تحریک کے عناصر شمال مشرقی صوبے بدخشاں تک پہنچ گئے ۔یہ پہاڑی علاقہ چین کے صوبے شنکیانگ کے ساتھ سرحد پر واقع ہے۔ یہ بات امریکی اخبار نے بتائی ۔شنکیانگ صوبے میں القاعدہ تنظیم سے مربوط مسلح اویغور جماعتوں کے ساتھ طالبان کے تاریخی تعلقات کے پیش نظر حالیہ

پیش رفت ماضی میں بیجنگ کے لیے باعث تشویش ہو سکتی تھی۔ تاہم ان اب افغان طالبان چین کے اندیشوں کو اطمینان میں بدلنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔بیجنگ کی ایک یونیورسٹی میں نیشنل اسٹریٹجک انسٹی ٹیوٹ کے شعبہ تحقیق کے سربراہ چیان ونگ کے مطابق افغان طالبان چین کے لیے حسنِ نیت کا اظہار چاہتے ہیں۔ طالبان امید رکھتے ہیں کہ بالخصوص امریکی افواج کے انخلا کے بعد چین زیادہ اہم کردار ادا کرے گا۔طالبان تحریک اس وقت دو مواقف میں اچھا توازن یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ ایک طرف عالمی اسلامی معاملات کی پاسداری ہے اور دوسری طرف بیجنگ کو قائل کرنا ہے کہ کابل میں طالبان حکومت چین کے استحکام کے لیے خطرہ نہیں بنے گی۔طالبان تحریک کے ایک اعلی ذمے دار کا کہنا تھاکہ “ہمیں مسلمانوں پر جبر کے معاملے میں دل چسپی ہے اور ہم اس پر توجہ دیتے ہیں خواہ فلسطین ہو ، میانمار ہو یا پھر چین ہم دنیا میں کسی بھی جگہ غیر مسلموں پر جبر کے لیے بھی فکر رکھتے ہیں، البتہ ہم چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہر گز نہیں کریں گے۔

افغان طالبان کے اویغور کے مسلح عناصر کے ساتھ تعلقات اس زمانے سے ہیں جب اسامہ  افغانستان میں سکونت پذیر تھے۔متعدد ایوغور جنگجو حالیہ برسوں میں شام منتقل ہوئے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا کہ اویغور کے تقریبا 500 مسلح ارکان ابھی تک افغانستان میں ہیں۔چین نے شدت پسند جماعتوں مثلا ترکستانی اسلامک پارٹی جیسی تنظیموں کی

موجودگی کو شنکیانگ صوبے میں اپنے کریک ڈان کا جواز بنایا۔ اس دوران میں دس لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو پیشہ وارانہ تربیت کے کیمپوں کے نام سے معروف مقامات پر قید میں رکھا گیا۔بدخشاں کے صدر مقام کے سوا صوبے کے بقیہ تمام علاقے اس وقت افغان طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔ حالیہ دنوں میں 1000 سے زیادہ افغان سرکاری فوجی فرار ہو کر سرحد پار تاجکستان میں داخل ہو گئے۔

اگرچہ بیجنگ کابل میں افغان صدر اشرف غنی کی حکومت کو سپورٹ کرتا ہے۔ اس نے متعدد بار طالبان کے وفود کا استقبال بھی کیا۔ رواں سال چین نے افغانوں کے درمیان امن بات چیت کی میزبانی کی پیش کش بھی کی تھی۔چین کی ریاستی سلامتی کی وزارت کے زیر انتظام ایک تحقیقی مرکز کے محقق لی وی ے کے مطابق طالبان کا خیال ہے کہ وہ ایک بار پھر معاملات کی باگ ڈور سنبھال سکتے ہیں۔ لہذا وہ پڑوسی ممالک کے ساتھ زیادہ دوستانہ تعلقات کے خواہش مند ہیں۔ مزید یہ کہ طالبان افغانستان کو بین الاقوامی دہشت گردی کے لیے زرخیز سرزمین کے طور پر دیکھنے کے خواہاں نہیں۔

موضوعات:



کالم



نوٹیفکیشن میں تاخیر کی پانچ وجوہات


میں نریندر مودی کو پاکستان کا سب سے بڑا محسن سمجھتا…

چیف آف ڈیفنس فورسز

یہ کہانی حمود الرحمن کمیشن سے شروع ہوئی ‘ سانحہ…

فیلڈ مارشل کا نوٹی فکیشن

اسلام آباد کے سرینا ہوٹل میں 2008ء میں شادی کا ایک…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(آخری حصہ)

جنرل فیض حمید اور عمران خان کا منصوبہ بہت کلیئر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(چوتھا حصہ)

عمران خان نے 25 مئی 2022ء کو لانگ مارچ کا اعلان کر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(تیسرا حصہ)

ابصار عالم کو 20اپریل 2021ء کو گولی لگی تھی‘ اللہ…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(دوسرا حصہ)

عمران خان میاں نواز شریف کو لندن نہیں بھجوانا…

جنرل فیض حمید کے کارنامے

ارشد ملک سیشن جج تھے‘ یہ 2018ء میں احتساب عدالت…

عمران خان کی برکت

ہم نیویارک کے ٹائم سکوائر میں گھوم رہے تھے‘ ہمارے…

70برے لوگ

ڈاکٹر اسلم میرے دوست تھے‘ پولٹری کے بزنس سے وابستہ…

ایکسپریس کے بعد(آخری حصہ)

مجھے جون میں دل کی تکلیف ہوئی‘ چیک اپ کرایا تو…