کابل(این این آئی)افغانستان میں قائم امریکی سفارت خانے کی طرف سے سفارتی سرگرمیاں جاری رکھنے کے اعلان کے باوجود امریکی حکام نے بتایاہے کہ کابل میں امریکی سفارت خانہ کے کانٹریکٹرز کی تعداد کو کم کرنے کا ارادہ ہے۔ اگر کابل میں امن وامان کی صورت حال زیادہ خراب ہوئی تو سفارت خانے کو عارضی طور پر بند کیا جاسکتا ہے۔
میڈیارپورٹس کے مطابق امریکی عہدیداروں نے مزید کہا کہ سفارت خانے میں تقریبا 4000 سفارت کار، کانٹریکٹرز اور دوسرے ملازمین شامل ہیں جن میں 1400امریکی شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کابل میں امریکی سفارت خانے میں موجود عملہ کم کرنے سے ہزاروں افغان اور امریکی ٹھیکیداروں کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کے عملے کو درپیش خطرات کم ہوں گے۔کابل میں امریکی سفارتخانہ عملے کے کچھ لوگوں کو امریکا بھیجنے، انہیں کم کرنے یا انہیں مکمل طور پر ملازمت سے ہٹانے پر بھی غور کر رہا ہے۔ایک دوسرے سیاق میں فوجی عہدے داروں نے توقع ظاہر کی کہ افغانستان میں ممکنہ ہنگامی صورتحال کو قابول میں رکھنے کے لیے میرین کور کی ایک کویک رسپانس فورس تشکیل دی جائے۔کابل میں امریکی سفارت خانہ دنیا کا سب سے بڑا سفارت خانہ ہے اور یہ افغان حکومت اور دیگر اتحادیوں سے رابطوں کو برقرار رکھنے، سیاسی اور سلامتی کی پیشرفت کے بارے میں رپورٹنگ کرنے اور اربوں ڈالر کے امدادی بجٹ کی نگرانی کا ذمہ دار ہے۔ دوسری جانب یمن میں امریکی اور فرانسیسی سفیروں کے بعد برطانیہ کے قائم مقام سفیر مائیکل آرون نے جنوبی یمن کے علاقوں میں کشیدگی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے یمنی دھڑوں پر زور دیا کہ وہ الریاض معاہدے کو مکمل طور پر نافذ کریں۔میڈیارپورٹس کے مطابق انہوں نے تمام فریقوں پر زور دیا کہ وہ ریاض معاہدے پر مکمل عمل درآمد کریں۔ ارون نے اپنے ٹویٹر اکائونٹ پر ایک ٹویٹ میں کہا کہ میں جنوبی یمن میں حالیہ کشیدگی میں اضافے پر بہت پریشان ہوں۔
یہ کشیدگی دونوں فریقوں کے مابین طے شدہ ریاض معاہدے کی خلاف ورزی کا نتیجہ ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اشتعال انگیز اقدامات کو ختم کرنا اور فریقین کو ریاض معاہدے کے مکمل نفاذ پر متفق ہونے کے لیے فوری طور پر سعودی ثالثی کے تحت مذاکرات کی میز پر واپس آنا چاہئیے۔قبل ازیں امریکی سفارتخانے کی طرف سے ریاض معاہدے پر فریقین سے بات چیت کی بحالی اور الریاض معاہدے پرعمل درآمد یقینی بنانے پر زور دیا گیا تھا۔