کراچی(آن لائن)پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایکسپورٹرز پر بجٹ میں مقامی کاروبار کے موازنہ میں 300فیصد زائد ٹیکس لگا دیاگیا،بجٹ میں وفاقی حکومت نے مقامی اسمال اور میڈیم انٹرپرائزز کو سہولت دی جبکہ حسب سابق ایکسپورٹ سیکٹر کی اسمال اور میڈیم انٹرپرائزز کی نظر انداز کر دیا گیا۔ویلیو ایڈیڈ ٹیکسٹائل ایسوسی ایشنز نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ
وفاقی بجٹ 2021-2022میں پانچ بڑے ایکسپورٹ سیکٹرز کیلئے انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کی شرح کم کرے۔ بجٹ تجاویز کو نظر انداز کرنے پر ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز حکومت سے مایوس ہو گئے۔ جاوید بلوانی، چیئرمین، پاکستان اپیرئل فورم، ریاض احمد، سینٹرل چیئرمین، طارق منیر، چیئرمین، پاکستان ہوزری مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن، شیخ شفیق،سابق چیئرمین، پاکستان ریڈی میڈ گارمنٹس مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرزایسوسی ایشن، رفیق گوڈیل، چیئرمین، پاکستان نٹ ویئر سویٹرزایکسپورٹرز ایسوسی ایشن، فیروز عالم لاری، چیئرمین، ٹاول مینوفیکچررز ایسوسی ایشن، خواجہ عثمان، سابق چیئرمین، پاکستان کاٹن فیشن اپیرئل مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن، عبد الصمد، چیئرمین، پاکستان کلاتھ مرچنٹس ایسوسی ایشن، ذولفقار چوہدری، چیئرمین، آل پاکستان ٹیکسٹائل پروسیسنگ ملز ایسوسی ایشن،خواجہ محمد یونس، چیئرمین، آل پاکستان بیڈ شیٹس اپ ہولسٹری مینو فیکچررز ایسوسی ایشن،شعیب مجید، چیئرمین، پاکستان ڈینم مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹر ز ایسوسی ایشن،نوید الہیٰ، چیئر مین، پاکستان بیڈ ویئر ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن اوریعقوب سلطان،چیئرمین اور پاکستان ویونگ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن نے کہا کہ ٹیکسٹائل ایکسپورٹر ز نے بجٹ تجاویز میں حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ
سابقہ زیرو ریٹنگ نو پیمنٹ نو ریفنڈ کا نظام بحال کیا جائے جس کا نفاذ ایس آر او1125کے تحت کیا گیاتھا۔مزکورہ نظام کی بحالی اسمال اور میڈیم ایکسپورٹرز کی بقاء کی خاطر ضروری ہے کیونکہ 17فیصد سیلز ٹیکس کے نفاذ کے بعد لیکوڈیٹی پھنس جانے کی وجہ سے شدید مالی مشکلات اور دباؤ کے سبب مالی سال 2020-21 تقریباً 30فیصد اسمال اور میڈیم ایکسپورٹرز
اپنا کاروبار بند کرنے پر مجبور ہو گئے۔17فیصد سیلز ٹیکس کا نفاذ ایکسپورٹس کے فروغ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔17?فیصد سیلز ٹیکس اگر مالی سال 2021-22میں بھی لیا گیا تو اندیشہ ہے کہ مزید کئی اسمال اور میڈیم ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز جو گزشتہ سال مالی مشکلات اور دباؤ کے باوجود اپنے ایکسپورٹ بزنس کو بچانے میں کامیاب ہو گئے اس سال اپنا کاروبار
جاری نہ رکھ سکیں گے اور بند ہو جائیں گے۔حکومت نے 17فیصد سیلز ٹیکس کا نفاذ ٹیکسٹائل کی مقامی فروخت پر ٹیکس وصول کرنے کی خاطر کیاجسے حاصل کرنے میں ایف بی آر ناکام رہا ہے۔ٹیکس دہندگان کا دائرہ کار بڑھانے کی خاطر ایف بی آر میں 10ہزار سے زائد اہلکار کام کر رہے ہیں جن کی کارکردگی مایوس کن اور نتیجہ صفر ہے۔انھوں نے تحفظات کا
اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ وزیر خزانہ نے آن لائن بلائے گئے اجلاس میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کو ان کے مطالبے کے جواب میں یقین دھانی کرائی تھی کہ ایکسپورٹ ڈولپمنٹ سرچارج جو حکومت 0.25فیصد کی شرح سے ایکسپورٹرز سے وصول کرتی ہے اس کی وصولیابی آئندہ سے نہ کی جائے گی۔ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کی ایکسپورٹ پروسیڈز سے
حکومت 0.25فیصد ایکسپورٹ ڈولپمنٹ سرچارج کی کٹوتی سال1992سے کر رہی ہے۔حکومت سالانہ بنیادوں پر تقریباً9بلین روپے جمع کرتی ہے۔اس وقت ای ڈی ایف کی مد میں حکومت کے خزانے میں تقریباً 58ارب روپے جمع ہیں۔ ایکسپورٹرز نے مطالبہ کیا کہ جب تک یہ رقم استعمال نہ ہوجائے حکومت ایکسپورٹ ڈولپمنٹ سرچارج کی کٹوتی معطل کر دے
جس پر وزیر خزانہ نے اجلاس میں ہی ایف ڈی ایف کو معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔تاہم بجٹ اعلان اور منظوری کے بعد بھی وزیر خزانہ کی یقین دھانی اور وعدے پر عمل نہ ہوسکا۔ایکسپورٹ ڈولپمنٹ سرچارج کی کٹوتی کے باعث بھی ایکسپورٹرز مالی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔نفاذ کے وقت یہ سرچارج نہیں تھا بلکہ سیس تھا جسے بعد میں سرچارج میں تبدیل کر
دیا گیا جس کا مقصد ایکسپورٹس کے شعبوں کا فروغ اور ترقی ہے۔ ماضی میں اس فنڈ کا غلط استعمال بھی ہوتا رہا ہے اور اس فنڈ کو غیر ایکسپورٹ سیکٹرز کیلئے استعمال کیا گیا۔ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کا مطالبہ ہے کہ مزکورہ ای ڈی ایف کا فنڈ جس مخصوص سیکٹر سے وصول کیا جائے اور خرچ بھی اسی سیکٹر کے فروغ و ترقی اور دیگر معاملات میں بہتری کے لئے
خرچ کیا جائے۔مزید ستم ظریفی کہ ہے کہ ایکسپورٹ ڈولپمنٹ بورڈ میں جو سیکٹر یا سب سیکٹر اپنا کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے سب سے زیادہ ایکسپورٹ کر رہے ہیں انھیں مستقل نمائندگی نہیں دی جاتی اور گزشتہ کئی سالوں سے انہیں مسلسل نظر انداز کیاجار ہاہے۔انھوں نے کہا کہ پاکستان کی معاشی و اقتصادی ترقی کیلئے اہم ہے کہ حکومت ایکسپورٹس کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرے اور ایکسپورٹس جو معیشت میں لائف لائن
کا درجہ رکھتی ہے اس کی حمایت جاری رکھے۔اس لئے ٹیکسٹائل ایکسپورٹر ز ایک مرتبہ پھر حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت سابقہ زیرو ریٹنگ نو پیمنٹ نو ریفنڈ کا نظام بحال کرے جس کا نفاذ ایس آر او1125کے تحت کیا گیاتھا یا پھر سیلز ٹیکس کی شرح 17فیصد سے گھٹا کر 5فیصد کرے، ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کے لئے ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح کو بھی کم کرے اور ایکسپورٹ ڈولپمنٹ سرچارج کو معطل کرے تا کہ ایکسپورٹرز کو سہولت ہو اور ملک کی مجموعی ایکسپورٹس میں بھی اضافہ ممکن ہو۔