اسلام آباد (این این آئی) اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے تو بہتر تو پرانا پاکستان تھا۔ قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے انہوںنے کہاکہ شہباز شریف نے اس جعلی بجٹ کی وجہ سے50 لاکھ افراد بے روزگاری کی دلدل میں پھنس چکے ہیں اور لوگ بجٹ کو دیکھ کر پوچھ رہے ہیں کہ
کہاں ہیں ایک کروڑ نوکریاں اور 50 لاکھ گھر۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح بلند ترین 15 فیصد تک پہنچ چکی ہے، 3 سال گزر گئے اور اس دوران مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کے منصوبوں کے فیتے کاٹتے ہیں اور تختیاں لگواتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ صوبے اکائیاں ہیں اور صوبوں کے مابین اتحاد ہی ملکی ترقی کا باعث بن سکتا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں کے باعث اعتماد کا فقدان ہے۔ انہوںنے کہاکہ احتساب کے نام پر متعدد سیاستدان سلاخوں کے لیے پیچھے سے آئیں، دراصل یہ سیاسی انتقام ہے۔انہوں نے کووڈ 19 کے معاملے پر حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے 12 سو ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا جو نااہلی کی نذر ہوگیا۔انہوں نے کہا کہ چین نے ویکسین فراہم کیں تو کیا ہمیں صرف تحائف پر اکتفا کرنا تھا۔انہوںنے کہاکہ کورونا کی لہر میں شدت تھی تب بھی وزیر اعظم عمران خان اور نیب کے گٹھ جوڑ کے باعث سیاستدانوں کو نشانہ بنایا جارہا تھا۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے آئندہ مالی سال 2021-22کا بجٹ کو غریب کے ساتھ مذاق قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ غریب کی جیب خالی ہے تو بجٹ جعلی ہے ، بجٹ منظور نہیں ہونے دینگے اور اس کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جائینگے ،برآمدات 2018 کے بعد نہیں
بڑھیں،ہاتھ پھیلانے والا فیصلہ فیصلہ کر نہیں سکتا ،بجٹ سے مزید بدحالی آئیگی اس سے تو پرانا پاکستان بہتر تھا ،ڈیری مصنوعات ،درآمدی گیس و مشیری پر ٹیکس ختم کیا جائے ،حالیہ دنوں میں ہونے والی قانون سازی آئین اور قانون سے متصادم ہے، ان میں کئی قانونی سقم ہیں،میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا قانون واپس لیاجائے ،احتساب کے نام
پر متعدد سیاستدان سلاخوں کیلئے پیچھے سے آئے، دراصل یہ سیاسی انتقام ہے،کشمیریوں کی خواہشات کے بر خلاف فیصلے نہیں کر سکتے ۔ جمعرات کو قومی اسمبلی کا اجلا س اڑھائی گھنٹے تاخیر سے شروع ہوا جس میں گزشتہ تین روز کے برعکس ماحول پر سکون دکھائی دیا اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے بھی چوتھے روز اپنی
تقریر مکمل کرلی ۔ بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہاکہ گزشتہ چار روز میں جو کچھ ہوا افسوس ناک ہے،اس ایوان کا ایک دن کا خرچہ کروڑوں روپے ہے،اس ایوان کا خرچہ غریب عوام کی جمع پونجی سے چلایا جاتا ہے،ہم غریب عوام کی زخموں پر مرہم رکھنے آئے ہیں تاہم اس دور ان ایک بار
پھرحکومتی بینچز سے شہباز شریف کی تقریر کے دوران سیٹیاں بجائی جانے لگیں تاہم اسپیکر قومی اسمبلی نے فوراً ہی قابو پالیا۔اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر غریب عوام کی جیب خالی ہے تو یہ بجٹ جعلی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ میں نے اس لیے کہا کہ گزشتہ تین برس میں ٹیکسوں کی بھرمار کی گئی اس کے
نتیجے میں غریب کی ایک روٹی آدھی ہوچکی ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ ہم ایوان کے ایئر کنڈیشن ماحول میں بیٹھ کر پاکستان کے طول و عرض میں عوام کے ساتھ ہونے والے مظالم کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ تین برس کے دوران ناقص پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان میں بھوک، بدحالی اور مایوسی نے جگہ بنالی
ہے۔انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں ہونے والی قانون سازی آئین اور قانون سے متصادم ہے، ان میں کئی قانونی سقم ہیں۔شہباز شریف ہم نے آواز اٹھائی لیکن نہیں توجہ نہیں دی گئی اور پھر سینیٹ میں جا کر اپوزیشن نے اپنا کردار ادا کیا۔انہوں نے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو مخاطب کرکے کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے مشترکہ
کمیٹی بننی چاہیے جس پر اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ اس ضمن میں بات ہوچکی ہے، اس کی تحقیقاتی کمیٹی بنے گی جس میں دونوں بینچز کی جانب سے اراکین شامل ہوں گے اور قانون سازی کے عمل جائزہ لیں گے۔شہباز شریف نے کہا کہ ایوان کی دونوں جانب جو لوگ موجود ہیں انہیں عوام نے منتخب کرکے بھیجا ہے اور حالیہ دنوں
میں پیش آنے والے واقعات پر دکھ ہے۔انہوں نے کہا کہ ایوان کا یومیہ خرچہ کروڑوں روپے ہے اور ہم یہاں عوام کے معاشی، اقتصادی اور معاشرتی مسائل حل کرنے کیلئے جمع ہوتے ہیں اس لیے ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ ہم یہاں کسان، مزدور، طالبعلم اور بے روزگار کی بات کرنے آئے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ جب ہم نے
حکومت چھوڑی جی ڈی پی کی شرح 5.8 فیصد تھی اور موجودہ حکومت کے دور میں کووڈ 19 سے پہلے ہی جی ڈی پی کی شرح منفی میں آگئی تھی۔انہوں نے کہا کہ بجٹ سے مزید بدحالی آئے گی اور 2 کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے آگئے۔شہباز شریف نے اس جعلی بجٹ کی وجہ سے50 لاکھ افراد بے روزگاری کی دلدل میں پھنس
چکے ہیں اور لوگ بجٹ کو دیکھ کر پوچھ رہے ہیں کہ کہاں ہیں ایک کروڑ نوکریاں اور 50 لاکھ گھر۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح بلند ترین 15 فیصد تک پہنچ چکی ہے، 3 سال گزر گئے اور اس دوران مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کے منصوبوں کے فیتے کاٹتے ہیں اور تختیاں لگواتے ہیں۔شہباز شریف نے کہا کہ
اس سے تو بہتر تو پرانا پاکستان تھا۔انہوں نے کہا کہ صوبے اکائیاں ہیں اور صوبوں کے مابین اتحاد ہی ملکی ترقی کا باعث بن سکتا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں کے باعث اعتماد کا فقدان ہے۔ انہوںنے کہاکہ احتساب کے نام پر متعدد سیاستدان سلاخوں کے لیے پیچھے سے آئیں، دراصل یہ سیاسی انتقام ہے۔انہوں نے
کووڈ 19 کے معاملے پر حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے 12 سو ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا جو نااہلی کی نذر ہوگیا۔انہوں نے کہا کہ چین نے ویکسین فراہم کیں تو کیا ہمیں صرف تحائف پر اکتفا کرنا تھا۔ انہوںنے کہاکہ کورونا کی لہر میں شدت تھی تب بھی وزیر اعظم عمران خان اور نیب کے گٹھ جوڑ کے باعث
سیاستدانوں کو نشانہ بنایا جارہا تھا۔انہوں نے کہا کہ ہر پاکستان پر قرض پونے دو لاکھ روپے تک پہنچ چکا ہے اور آئندہ آنے والی نسلوں کا آخری بال بھی مقروض ہوچکا ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک ہاتھ میں ایٹمی طاقت ہو اور دوسرے ہاتھ میں کشکول ہو، یہ برقرار نہیں رہ سکتا، ہمیں ایٹمی صلاحیت بن کر رہنا ہے،
اس کے لیے وہ حالات اور وسائل پیدا کرنے ہوں گے۔قائد حزب اختلاف نے کہا کہ ہاتھ پھیلانے والا فیصلہ تو کر نہیں سکتا، وہ تو ہمیشہ ڈکٹیشن لے گا، اگر ڈکٹیشن ختم کرنی ہے اور اپنے آپ کو پاؤں پر کھڑا کرنا ہے تو پھر وہ کشکول توڑنا ہوگا، جو راتوں رات نہیں ہوسکتا لیکن اس کے لیے شروعات توکریں۔انہوںنے کہاکہ ہم پر الزام تھا کہ
انہوں نے برآمدات کو نہیں بڑھایا تو انہوں نے کیا کیا، 2018 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت مکمل ہونے پر برآمدات کی جو سطح تھی، اس کے بعد آج تک روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں 35 فیصد گرچکی ہے، جب روپے کی قدر گری تو درآمدات کی قیمت اسی حساب سے مہنگی ہوگئی، جس کا مطلب ہے کہ ہر چیز مہنگائی کی
طرف گئی۔انہوں نے کہا کہ پھر زراعت، کارخانہ اور زراعت سمیت ہر شعبے کی مصنوعات مہنگی ہوگئی، روپے کی قدر 35 فیصد تک گرانے کے باوجود برآمدات آج تک 2018 کے مقابلے میں نہیں بڑھیں۔انہوںنے کہاکہ حکمرانوں نے ملک کو مہنگائی کے طوفان میں برباد کردیا لیکن ان تین برسوں میں برآمدات نہیں بڑھا سکے۔صدر
مسلم لیگ (ن) نے حکومتی اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان تین برسوں میں حکومت نے 10 ہزار ارب روہے سے زیادہ مالیاتی خسارہ کیا۔انہوںنے کہاکہ جس حکومت پر یہ کیڑے نکالتے ہیں، نواز شریف کے تین ادوار کے 10 برسوں میں جو مالیاتی خسارہ ہے، اس کے مقابلے میں ان تین برسوں کا خسارہ کہیں زیادہ ہے۔انہوں نے کہا کہ
وزرا نے کہا کہ روپے کی قدر کم ہوگی، اس سے سٹا بازی کی گئی اور بہت زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑا۔شہباز شریف نے سوال کرتے ہوئے کہاکہ اس حکومت نے ان تین برسوں میں کوئی مشہور ہسپتال بنایا، کوئی یونیورسٹی بنائی، کوئی ٹیکنیکل یونیورسٹی بنائی، کوئی ایل این جی کا اضافہ ٹرمینل بنایا، کوئی اسٹوریج بنائی، اسٹوریج کی
عدم دستیابی کی وجہ سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوئی۔انہوںنے کہاکہ انہوں نے ماسوائے تختیاں لگانے اور فیتے کاٹنے کے کیا کیا ہے، اگر ایک دو مثالیں دو تو ہنسی بھی آئے گی اور حیرانی بھی ہوگی کیونکہ انہوں نے ان منصوبوں پر تختیاں لگائیں اور فیتے کاٹے ، جن پر نواز شریف کے دور حکومت میں مکمل ہو کر چل پڑے تھے۔
شہباز شریف نے کہا کہ ان کا دامن ہر حوالے سے عمل سے خالی ہے کیونکہ کسی کو مال بنانے کا شوق ہو تو وہ کیسے عمل کرے گا، یہ قوم جری ہے، اگر آپ اس کا ہاتھ لے کر چلیں تو ساتھ چلنے والی قوم ہے۔انہوں نے کہا کہ لنگر خانے بنائے گئے، یہ اچھی بات ہے ، حکومت کو اس پر تعاون کرنا چاہیے لیکن حکومت کا اصل کام منصوبہ
بندی ہے اور لنگر خانوں میں آنے والوں کو ان کے پاؤں پر کھڑا کرنا ہوتا ہے۔انہوںنے کہاکہ اس حکومت کے تین بجٹ کے بعد عوام پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ میرا گھر اورمیرا جیب خالی ہے، میں اپنے بچوں کا پیٹ کیسے پالوں، ادویات کہاں سے لاؤں۔وزیرخزانہ شوکت عزیز کی بجٹ تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ
وزیرخزانہ یہاں موجود نہیں ہے لیکن انہوں نے ایک طرف کہا کہ پاکستان میں ریکارڈ فصلیں ہوئی ہیں اور دوسری طرف کہا کہ پاکستان غذائی خسارے کا ملک بن گیا ہے، یہ کتنے تضاد کی بات ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر ریکارڈ زرعی پیداوار ہوئی ہے تو رمضان میں آٹا اور چینی کا ایک کلو خریدنے اور صرف 20 روپے بچانے کے لیے
ہماری مائیں بہنوں اور عوام کو لمبی قطاروں میں کیوں کھڑا ہونا پڑا، آج تک اس طرح کا دہل ہلا دینے والا منظر کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔انہوںنے کہاکہ اگر ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے تو آٹا 35 روپے کلو سے 85 روپے فی کلو کیسے پہنچ گیا، چینی ہمارے دور میں 52 روپے کلو سے اوپر نہیں گئی وہ 100 روپے سے اوپر کس طرح چلی
گئی، یہ ہیں وہ چھبتے ہوئے سوال جن کے جواب قوم حق و سچ کے پیرائے میں سننا چاہتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ان سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وزیراعظم کی اجازت سے اس حکومت نے 11 لاکھ ٹن چینی درآمد کی، اربوں روپے کی سبسڈی دی جاتی ہے اور روپے کی قدر کھونے دیا جاتا ہے، ایک طرف اربوں کی سبسڈی دی جاتی ہے اور
دوسری طرف روپے کی غیرمعمولی کمی کی گئی اس طرح ان کے لیے راہیں کھولی گئیں۔ انہوںنے کہاکہ یہ سب ایکسپورٹر کے لیے گیا، شور بڑا ہوا کہ نہیں چھوڑوں گا لیکن اب تک کچھ نہیں ہوا، اس کی کوئی وجہ نہیں تھی، یہ اسکینڈلز کی ماں ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ حکومت کا یہ چوتھا بجٹ ہے، میں نے شروع میں کہا کہ اگر عوام کی
جیب خالی ہے تو بجٹ جعلی ہے، اسی طرح یہ بجٹ مہنگائی کم نہیں کرے گا، روزگار مہیا نہیں کرے گا اور غربت کم نہیں کرے گا تو یہ بجٹ نہیں یہ سراسر دھوکا اور قوم کے ساتھ فراڈ ہے، جس کی ہم بھر پور مذمت کرتے ہیں اورہم اس کو ایکسپوز کریں گے۔انہوں نے کہا کہ پوری اپوزیشن کا متفقہ فیصلہ ہے کہ واقعی اگر یہی صورت حال
ہے، مہنگائی کا اور طوفان آئے گا اور غربت بڑھے گی تو ہم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنیں گے اور اس بجٹ کو منظور نہیں ہونے دیں گے۔انہوںنے کہاکہ یہ غریب کے ساتھ سنگین مذاق ہے،لہٰذا حکومتی بنچوں کے گوش گزار کر رہاہوں کہ جہاں درستی کی ضرورت ہے وہاں آپ ٹھیک کریں گے تو قوم آپ کے اس فیصلے کو تحسین سے
دیکھے گی،قوم کے سامنے اپنی انا اور ضد کوئی چیز نہیں ہوتی۔قائد حزب اختلاف نے کہا کہ خدارا آئیں، ضد اور انا کو اپنا مسئلہ نہ بنائیں اور قوم کامقدر اورپاکستان کا مفاد کے لیے کام کریں اور پاکستان کو عظیم بنائیں اور اس کے لیے دیر نہ کریں۔انہوں نے کہا کہ ان تین برسوں میں ٹیکسوں کو بوجھ ڈالا گیا ہے، ٹیکس کے اہداف بھی کم
تھے اور اس سال بھی شنید ہے کہ ٹیکس کا ہدف کم ہے۔انہوںنے کہاکہ اضافی ٹیکس لگا کر انہوں نے اضافی رقم جمع کیں وہ ٹیکس میں 800 ارب ہے اور کیسے ممکن ہے کہ ایک سال میں 1100 ارب روپے جمع کریں گے، اس کا مطلب ہے یہ دوگنی مہنگائی لے کر آئیں گے۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے دور میں 2013 میں جو ٹیکس
سرمایہ تھا وہ 2018 میں دوگنا ہوگیا،3 ہزار 842 ارب تک پہنچ گیا، آئی ایم ایف کا پروگرام بھی مکمل ہوا، یہاں تو بریک لگ جاتی ہے، ہمارے دور میں آئی ایم ایف کاپروگرام بھی ہوا، ترقیاتی کام بھی ہوئے اور سی پیک کے منصوبے بھی بن گئے۔انہوںنے کہاکہ آج تین سال بعد ریورس گیئر لگ گیا ہے، یہ نہیں ہونا چاہیے، جہاں 2018 میں
حکومت ان کے حوالے کی تھی اس کے مطابق آج شرح نمو 7 فیصد تک پہنچ گئی ہوتی اور معیشت کا حجم ہم نے 313 ارب ڈالر پر چھوڑا بدقسمتی سے آج وہ 296 ارب ڈالر پر پہنچ گیا ہے اور گر گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ انہیں کچھ نہیں کرنا تھا بلکہ اسی کی پیروی کرنی تھی اور آج معیشت کا حجمم370 ارب ڈالر ہوتی۔شہباز شریف نے کہا
کہ وزیرخزانہ کہتے ہیں کوئی ٹیکس نہیں لگے گا جبکہ شنید ہے کہ 383 ارب کے ٹیکس لگیں گے، اگر ایسا ہوا تو غریب کی روٹی پہلے ہی چھنی جا چکی ہے تو وہ کس طرح زندہ رہے گا اور اپنے بچوں کو کھانے کا انتظام کرے گا۔انہوںنے کہاکہ ان ظالمانہ ٹیکسوں مں خام تیل اور ایل این جی پر 17 فیصد سیلز ٹیکس لگایا جا رہا، اس سے
غریب عوام پر ایک نئی قیامت ٹوٹ پڑے گا وہ پہلے ہی تین برسوں میں بیحال ہوچکیہیں، اب ان پر نئے ٹیکس لگا کر وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اطلاع ہے کہ 120 ارب روپے کے اضافی انکم ٹیکس عائد ہونے جارہے ہیں، انکم سے محروم لوگ مگر ان کو کہہ رہے ہیں ٹیکس دو، انکم ان کی ہے نہیں اور ان کو ٹیکس عائد کر
رہے ہیں۔شہباز شریف نے کہا کہ اب پاکستان میں میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا قانون لایا جا رہاہے، اس قانون کو خود پیمرا نے بھی مسترد کردیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کالے قانون کو فی الفور واپس لیا جائے، ہم اس کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ ہے وہ نیا پاکستان، یہ ہے وہ جمہوریت، یہ ہے وہ طاقت ور کو تابع کرنا، جس کا
عمران خان اور پی ٹی آئی 22 سال سے ڈھونڈورا پیٹتے رہے اورجو ان تین سال میں ہوا وہ آپ کے سامنے ہے۔قائد حزب اختلاف نے کہا کہ کشمیر کے حوالے سے کبھی کہا جاتا ہے کہ جب تک بھارت آرٹیکل 237 واپس نہیں لیتا ہم بات نہیں کریں گے، کبھی کہتے ہیں ہمارا اسے کوئی واسطہ نہیں ہے، وہ ان کا اندرونی معاملہ ہے۔انہوںنے کہاکہ
کشمیریوں کی اجازت اورمشاورت کے بغیر کوئی بات کرسکتے ہیں، جن کے خون سے کشمیر کی وادی سرخ ہوچکی ہے، وہ در بدر ہوئے ہیں اور ہزاروں بچے یتیم ہوچکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آج ہم کیسے ان کی خواہشات کے برخلاف اور اقوام متحدہ میں قراردادیں منظور ہوئیں، لوک سبھا میں خود آنجہانی وزیراعظم نہرو نے اس کی بات کی تھی تو ہم کیسے اکیلے اس بات کو فیصلہ کر سکتے ہیں، یہ ممکن نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ ہمیں
تدبر، فہم و فراست سے بات کرنی ہوگی، ورنہ ہم پر کوئی اعتبار نہیں کرے گا، افغانستان کو دیکھ لیجے گا، جو افغانستان کے لیے اچھا ہے وہ پاکستان کے لیے اچھا ہے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان اور ہم ہمسایے ہیں، اگر وہاں خدا نخواستہ بدامنی آئی تو ہم اس دہائی میں چلے جائیں گے، جب 40 لاکھ مہاجرین یہاں پر موجود تھے۔قائد حزب اختلاف نے کہا کہ ہمیں ان تمام مسائل پر بہت ہی سنجیدگی کے ساتھ فیصلے کرنے ہوں گے۔