منگل‬‮ ، 19 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

کسانوں سے سستی گندم خرید کر سرمایہ کا ر2000روپے میں بیچ رہے ہیں، ایک دو ماہ میں آٹا عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہو جائے گا، کسانوں نے کچا چٹھا کھول دیا

datetime 7  جون‬‮  2021
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور(این این آئی)پاکستان کسان اتحادکے مرکزی چیئرمین چوہدری محمد انور نے کہا ہے کہ حکومت اعدادوشمار کے حوالے جھوٹ بول رہی ہے،گندم کا ہدف پورا نہیں ہوا، اگر اتنی اچھی فصل ہو ئی ہے تو آٹا کیوں مہنگا ہوا ہے اسے تو سستا ہو نا چاہیے تھا،کسانوں سے1800روپے فی من گندم خرید کر سرمایہ کا راسے 2000روپے میں

بیچ رہے ہیں،جو حالات چل رہے ہیں اس کے مطابق ایک دو مہینے بعد آٹے کی قیمتوں میں اتنا اضافہ ہو گا کہ عام آدمی کی قو ت خرید سے باہر ہو جائے گا۔دیگرعہدیداروں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک ملک میں گندم کی ایک قیمت نہیں،سندھ میں قیمت زیادہ ہے اور پنجاب میں کم ہے،کسان دن رات کھیتوں میں محنت کر کے فصل اگاتا ہے مگر جب فروخت کی باری آتی ہے تو اے سی اور ڈی سی آجاتے ہیں۔اگر کسان سے 1800روپے گندم خریدی ہے تو عوام کو آٹا بھی اسی قیمت پر دیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم صاحب ہمیشہ یہی بات کرتے ہیں کہ ان کو نہیں چھوڑو گا،جیل میں ڈال دوں گا،ان کو جیلوں میں ڈالنے سے ملک کا مزید نقصان ہو گا،واجبات کی ادائیگی نہیں ہو گی تو کسان اگلی فصل کیسے کاشت کرے گا۔انہوں نے چینی کے حوالے سے کہا کہ حکومت کو آرڈیننس کا پتہ ہی نہیں چلا،حکومت کو چاہیے کہ کسانوں اور شوگرملزوالوں کو ساتھ بٹھاکے ان کی باہمی مشاورت سے قانون بنائے جس سے سب کو فائدہ ہو۔ جہانگیر ترین کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ ان کی ملوں نے کسانوں کو تمام واجبات ادا کر دیئے ہیں۔ گندم اور گنا ذخیرہ کرنے کے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جہاں تک گنے کا تعلق ہے تو وہ ذخیرہ نہیں ہو سکتاکیونکہ گنا سوکھ جاتا اور اس کا وزن بھی کم ہو جاتا

ہے لہٰذاگنے کا ذخیرہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور جہاں تک گندم کے ذخیرہ ہونے کا تعلق ہے تو وہ سرمایہ کا ر کر رہے ہیں،کسانوں سے تو اے سی اور ڈی سی صاحبان کب کے گندم خرید چکے ہیں اور ویسے بھی کسانوں کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہوتا کہ وہ گندم ذخیرہ کر سکیں کیونکہ انہوں نے گندم بیچ کر اگلی فصل کاشت کرنی ہوتی

ہے۔فصلوں کے ساتھ ساتھ ایک اہم مسئلہ بجلی، کھادوں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے او ر جعلی زرعی ادویات کاہے، پچھلے دور میں بجلی کی فی یونٹ قیمت 5.60روپے تھی جو کہ اب 16روپے ہو چکی ہے،یوریا کھاد 1400روپے اور ڈی اے پی 2400کی تھی جو کہ اب 2400اور 5700کی ہو چکی ہیں جس سے

پیداواری لاگت کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ کسان رہنماؤں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ بجلی کے سابقہ ریٹس بحال کیے جائیں،یوریا کھاد اور ڈی اے پی کی قیمت کم کی جائے،جعلی زرعی ادویا ت کی فروخت بند کرائی جائے اور حکومت فصل کی کاشت کے وقت قیمت طے کرے تاکہ کسان کو اگر فائدہو تو وہ فصل کاشت کرے۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟


سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…