جمعرات‬‮ ، 30 جنوری‬‮ 2025 

کسانوں سے سستی گندم خرید کر سرمایہ کا ر2000روپے میں بیچ رہے ہیں، ایک دو ماہ میں آٹا عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہو جائے گا، کسانوں نے کچا چٹھا کھول دیا

datetime 7  جون‬‮  2021
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور(این این آئی)پاکستان کسان اتحادکے مرکزی چیئرمین چوہدری محمد انور نے کہا ہے کہ حکومت اعدادوشمار کے حوالے جھوٹ بول رہی ہے،گندم کا ہدف پورا نہیں ہوا، اگر اتنی اچھی فصل ہو ئی ہے تو آٹا کیوں مہنگا ہوا ہے اسے تو سستا ہو نا چاہیے تھا،کسانوں سے1800روپے فی من گندم خرید کر سرمایہ کا راسے 2000روپے میں

بیچ رہے ہیں،جو حالات چل رہے ہیں اس کے مطابق ایک دو مہینے بعد آٹے کی قیمتوں میں اتنا اضافہ ہو گا کہ عام آدمی کی قو ت خرید سے باہر ہو جائے گا۔دیگرعہدیداروں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک ملک میں گندم کی ایک قیمت نہیں،سندھ میں قیمت زیادہ ہے اور پنجاب میں کم ہے،کسان دن رات کھیتوں میں محنت کر کے فصل اگاتا ہے مگر جب فروخت کی باری آتی ہے تو اے سی اور ڈی سی آجاتے ہیں۔اگر کسان سے 1800روپے گندم خریدی ہے تو عوام کو آٹا بھی اسی قیمت پر دیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم صاحب ہمیشہ یہی بات کرتے ہیں کہ ان کو نہیں چھوڑو گا،جیل میں ڈال دوں گا،ان کو جیلوں میں ڈالنے سے ملک کا مزید نقصان ہو گا،واجبات کی ادائیگی نہیں ہو گی تو کسان اگلی فصل کیسے کاشت کرے گا۔انہوں نے چینی کے حوالے سے کہا کہ حکومت کو آرڈیننس کا پتہ ہی نہیں چلا،حکومت کو چاہیے کہ کسانوں اور شوگرملزوالوں کو ساتھ بٹھاکے ان کی باہمی مشاورت سے قانون بنائے جس سے سب کو فائدہ ہو۔ جہانگیر ترین کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ ان کی ملوں نے کسانوں کو تمام واجبات ادا کر دیئے ہیں۔ گندم اور گنا ذخیرہ کرنے کے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جہاں تک گنے کا تعلق ہے تو وہ ذخیرہ نہیں ہو سکتاکیونکہ گنا سوکھ جاتا اور اس کا وزن بھی کم ہو جاتا

ہے لہٰذاگنے کا ذخیرہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور جہاں تک گندم کے ذخیرہ ہونے کا تعلق ہے تو وہ سرمایہ کا ر کر رہے ہیں،کسانوں سے تو اے سی اور ڈی سی صاحبان کب کے گندم خرید چکے ہیں اور ویسے بھی کسانوں کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہوتا کہ وہ گندم ذخیرہ کر سکیں کیونکہ انہوں نے گندم بیچ کر اگلی فصل کاشت کرنی ہوتی

ہے۔فصلوں کے ساتھ ساتھ ایک اہم مسئلہ بجلی، کھادوں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے او ر جعلی زرعی ادویات کاہے، پچھلے دور میں بجلی کی فی یونٹ قیمت 5.60روپے تھی جو کہ اب 16روپے ہو چکی ہے،یوریا کھاد 1400روپے اور ڈی اے پی 2400کی تھی جو کہ اب 2400اور 5700کی ہو چکی ہیں جس سے

پیداواری لاگت کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ کسان رہنماؤں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ بجلی کے سابقہ ریٹس بحال کیے جائیں،یوریا کھاد اور ڈی اے پی کی قیمت کم کی جائے،جعلی زرعی ادویا ت کی فروخت بند کرائی جائے اور حکومت فصل کی کاشت کے وقت قیمت طے کرے تاکہ کسان کو اگر فائدہو تو وہ فصل کاشت کرے۔

موضوعات:



کالم



دجال آ چکا ہے


نیولی چیمبرلین (Neville Chamberlain) سرونسٹن چرچل سے قبل…

ایک ہی راستہ بچا ہے

جنرل احسان الحق 2003ء میں ڈی جی آئی ایس آئی تھے‘…

دوسرے درویش کا قصہ

دوسرا درویش سیدھا ہوا‘ کمرے میں موجود لوگوں…

اسی طرح

بھارت میں من موہن سنگھ کو حادثاتی وزیراعظم کہا…

ریکوڈک میں ایک دن

بلوچی زبان میں ریک ریتلی مٹی کو کہتے ہیں اور ڈک…

خود کو کبھی سیلف میڈنہ کہیں

’’اس کی وجہ تکبر ہے‘ ہر کام یاب انسان اپنی کام…

20 جنوری کے بعد

کل صاحب کے ساتھ طویل عرصے بعد ملاقات ہوئی‘ صاحب…

افغانستان کے حالات

آپ اگر ہزار سال پیچھے چلے جائیں تو سنٹرل ایشیا…

پہلے درویش کا قصہ

پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں…

آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے

پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…

صفحہ نمبر 328

باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب…