اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)صحافی اور یوٹیوب ولاگر اسد طورکی حمایت میں مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے سینئر صحافی حامد میر نے ریاستی اداروں کو تنبیہ کی کہ اب آئندہ کسی صحافی کیساتھ ایسانہیں ہونا چاہیے ورنہ وہ ”گھر کی باتیں بتانے پر مجبور ہوں گے”۔مظاہرے کے دوران حامد میر کی تقریر کا کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا اور حامد میر کے
حق اور مخالفت میں ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرنے لگے۔بی بی سی اردو کے مطابق ان کی تقریر میں کہی گئی کئی باتوں سے واضح تھا کہ ان کی تنقید کا نشانہ ملٹری اسٹیبلشمینٹ ہے۔حامد میر کی تقریر کے بعد سوشل میڈیا پر رائے بڑی منقسم نظر آئی جہاں ایک جانب حامد میر کے حامیوں نے ان کی ہمت کو سراہا اور داد دی، وہیں دوسری جانب ان کے ناقدین نے تقریر پر تنقید کی اور ان پر غلط بیانی کے الزامات لگائے۔ایک صارف ‘آئی کراچی والا’ نے حامد میر کی تقریر کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ‘حامد میر نے ریاستی ادارے پر دو بڑے سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔ وہاں سے جواب آنا چاہیے کیونکہ الزامات ہر جگہ سنے گئے ہیں۔ جواب نہ آنے کی صورت میں ادارے کے خلاف لوگوں میں نفرت پیدا ہو سکتی ہے۔’ایک اور صارف نے حامد میر کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ان کے والد کہا کرتے تھے کہ ‘حامد میر اپنے والد وارث میر کی طرح ریاست اور اس کے اداروں کو جمہوریت اور آزادی صحافت کے نام پر نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔
میں کبھی اپنے والد کی بات نہیں سمجھ سکی تھی تاوقتیکہ آج میں نے یہ (تقریر)دیکھ لی۔’حامد میر کی حمایت میں ٹویٹ کرتے ہوئے محقق اور سماجی کارکن عمار علی جان نے حامد میر کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کو’اس طرح سر عام پاکستان کی تاریخ کے مسخ شدہ بیانیہ کو چیلنج’ کرنے پر داد پیش کرتے ہیں۔’عمار نے مزید لکھا کہ پاکستان ‘
عالمی طاقتوں کے لیے کرائے کی ریاست کا کردار ادا کرتا ہے’ اور اس شرمندگی کا باعث ‘صحافی یا ناقدین نہیں ہیں بلکہ وہ ہیں جو عام شہریوں پر غیر ملکی ایجنٹ ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں۔’پنجاب حکومت سے منسلک اظہر مشوانی نے بھی حامد میر کی جانب سے لگائے گئے الزامات پر کہا کہ ‘سوال یہ ہے کہ قومی ادارے پر ایسے الزامات لگانے
والوں کے خلاف ایکشن لینے کی بجائے وہ ہر ٹاپ سیکرٹ بریفنگ میں کیوں بلائے جاتے ہیں؟ اور ایسے ان کی اہمیت کیوں بنائی جاتی ہے؟’سماجی کارکن علم زیب محسود نے حامد میر کی تقریر پر کہا کہ وہ حامد میر کے ساتھ مکمل طور پر اتفاق کرتے ہیں اور صحافت کے دشمنوں کو پردے کے پیچھے نہیں چھپنا چاہیے۔