لاہور(این این آئی)سیشن اور بینکنگ جرائم کورٹ نے جہانگیر ترین اور علی ترین سمیت دیگر کی عبوری ضمانتوں میں 31مئی تک توسیع کر دی جبکہ عدالت نے ایف آئی اے کوواضح کہا ہے کہ اگر آئندہ سماعت پرتفتیش مکمل نہ کی گئی توشوکازجاری کیے جائیں گے۔جہانگیر ترین اپنے صاحبزادے علی ترین اور حامی وزراء اور اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کے ہمراہ سیشن عدالت میں
پیش ہوئے ۔سیشن کورٹ کے جج حامد حسین عدالت نے ایف آئی اے کے افسر سے سوال کیا کہ تحقیقات کہاں تک پہنچی؟ اس پر ایف آئی اے نے بتایا کہ تحقیقات جاری ہیں اور ہم ریکارڈ کا جائزہ لے رہے ہیں، بھاری ٹرانزیکشنز ہوئیں اس پر تحقیقات کر رہے ہیں، ریکارڈ ہمارے پاس آ گیا ہے اس کو بھی دیکھ رہے ہیں۔دوران سماعت سیشن کورٹ کے جج حامد حسین نے ایف آئی اے کی انکوائری رپورٹ کا بھی جائزہ لیا۔بعد ازاں عدالت نے جہانگیر ترین اور علی ترین کی عبوری ضمانتوں میں 31 مئی تک توسیع کردی اور کہا کہ ایف آئی اے فوری تفتیش مکمل کرے مزیدوقت نہیں دیاجائے گا،اگر ایف آئندہ سماعت پرتفتیش مکمل نہ کی گئی توشوکازجاری کیے جائیں گے۔جہانگیر ترین اور علی ترین بینکنگ جرائم کورٹ کے جج امیرمحمدخان کے رو برو پیش ہوئے ۔جہانگیر ترین کے وکیل نے بتایا کہ کورونااورعید کی وجہ سے مشکلات پیش آئیں ،مشکلات کے باوجودہم نے تمام ریکارڈجمع کیا ، چھٹیاں تھیں بینک بندتھے مگرپھر بھی ساراریکارڈایف آئی اے کو دیدیا، تمام ریکارڈعدالت میں پیش کریں گے، ایک ایک روپے کاریکارڈ،منی ٹریل ایف آئی اے کوفراہم کیا ہے۔نے ایف آئی اے کے تفتیشی افسر سے سوال کیا کہ کیا جہانگیر ترین کو گرفتار کرنا چاہتے ہیں؟ اس پر ایف آئی اے نے خاموشی اختیار کی اور کہا کہ ریکارڈ کا جائزہ لے رہے ہیں۔بعد ازاں بینکنگ کورٹ نے بھی جہانگیر ترین اور علی ترین کی ضمانت میں 31 مئی تک توسیع کردی۔بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جہانگیر ترین نے پی ٹی آئی سے علیحدگی یا فارورڈ بلاک بنانے کے حوالے سے میڈیا اطلاعات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عشائیے کے موقع پر
میڈیا میں یہ طوفان کھڑا کر دیا گیا کہ خدانخواستہ ہم تحریک انصاف سے الگ ہو رہے ہیں میں میں آپ کو کھلے عام بتا رہا ہوں ہم پی ٹی آئی کا حصہ تھے ہیں اور انشااللہ رہیں گے ۔انہوں نے کہا کہ دو مسائل ہیں جن کا میں ذکر یہاں ذکر کرتا چاہتا ہوں ،ایک ایشویہ تھاکہ جہانگیر اور ایف آئی اے کا معاملہ تھا جس کے ساتھ میرے تمام دوست کھڑے ہیں۔میرے دوسرے وز یر اعظم کو ملے اور انہوں نے علی ظفر کو نامزد کیا کہ وہ دونوں طرف سے لوگوں سے ملیںاور ہماری ان سے تفصیلی میٹنگز ہوئی ہیں ،
انہوں نے ہمیں وقت دیا ہے اور امید ہے کہ ان کی رپورٹ جلد ازجلد منظر عام پر آ جائے گی یا وزیر اعظم کو چلی جائے گی اور ہمیں انصاف ملے گا ۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھاکہ کوئی انتقامی کارروائی نہیں ہو گی اور میں ان کا احترام کرتا ہوں ،وہ انصاف پسند آدمی ہیں اورانصاف دیں گے۔ لیکن اس کے بعد یہ مسئلہ شروع ہو گیا کہ پنجاب حکومت نے ہمارے گروپ کے لوگوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں شروع کر دی اور ان پر دبائو ڈالنا شروع کر دیا گیا ،ان کے اردگرد موجود افسران کے تبادلے شروع کر دئیے گئے ۔یہ اس دبائو کا نتیجہ تھاکہ اور اسی وجہ سے عشائیے میں ہم نے فیصلہ کیا ہم پنجاب اسمبلی میں
اپنی آواز اٹھائیں گے ۔ انہوں نے کہاکہ یہ تاثر غلط ہے کہ یہ گروپ آج بنا ہے بلکہ یہ تین مہینے سے بنا ہو اہے ،کیونکہ پنجاب حکومت عمران خان کی پالیسی کے برعکس ہمارے گروپ کے لوگوں پر دبائو ڈال رہی ہے تو یہ فیصلہ کیا گیا کہ ہم نے اسمبلی میں بات کرنی ہے اوراس کے لئے ضروری ہے گروپ میں سے کسی ایک شخص کو نامزد کیا جائے جس کے لئے سعید اکبر نوانی کو نامزد کیا گیا جو اس گروپ کی پنجاب اسمبلی میں ترجمانی کریں گے ۔ہم فارورد بلاک نہیں ہیں ہم پی ٹی آئی کا حصہ ہیں
اور رہیں گے ،پارٹی ٹوٹی ہے اور نہ ٹوٹے گی ۔ پنجاب حکومت کو کہوں گاکہ وہ اپنی کارروائیاں بند کرے اور ہمارے گروپ کے لوگوں کا خیال رکھے ،یہ آپ کے بھی اراکین اسمبلی ہیں انہوں نے آپ کو ووٹ دے کر وزیر اعلیٰ بنایا ہے ،انتقامی کارروائیاں بند کریں بات کریں اور مسئلے حل کریں ، ہم اسمبلی میں اپنی آواز ضرور اٹھائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ انتقامی کارروائیوں میں اور بھی بہت ساری باتیں جنہیں یہاں سامنے نہیں لانا چاہتا۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی ایک فیملی ہے ، آپ جس طرح باقی اراکین سے
بات کرتے ہیں اس طرح ہمارے گروپ کے اراکین اسمبلی سے بھی بات کریں ۔انہوں نے شاہ محمود قریشی کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ میں نے کسی کا نام نہیں لیا اور نہ لوں گا کیونکہ میری یہ عادت نہیں ہے ۔ ہم سب اکٹھے ہیں اور اکٹھے ہو کرانتقامی کارروائیوں کا مقابلہ کریں گے۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے لئے اعتماد کے ووٹ کے حوالے سے کہا کہ میں نہیں سمجھتا انہیں
اعتماد کا ووٹ لینا چاہیے کیونکہ ہم پی ٹی آئی سے باہر تو نہیں نکلے ہم پی ٹی آئی کا حصہ ہیں، ہم حکومت کے ساتھ ہیں اور کسی کو اس میں شک نہیں ہونا چاہیے ۔ ہر پارٹی میں دھڑے ہوتے ہیں لیکن ہمیں ٹارگٹ کیا جارہا ہے ،اپنا موقف بیان کرنے کے لئے اسمبلی میں بات کریں گے ،ہر آدمی کا حق ہے کہ وہ اپنا موقف بیان کرے ، اس گروپ کے جو فیصلے ہوں گے وہ اجتماعی ہوں گے۔ قبل ازیں جہانگیر ترین کی رہائشگا ہ پر صوبائی وزراء اور اراکین اسمبلی کا اکٹھ ہوا جس میں مجموعی صورتحال پر تبادلہ خیال اور گزشتہ رات عشائیے کے حوالے سے میڈیا میں موقف دینے کے لئے مشاورت کی گئی ۔