اسلام آباد (اے پی پی)وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ راولپنڈی رنگ روڈ کو اٹک رنگ روڈ بنایا گیا، منصوبے کی الائنمنٹ کی تبدیلی پر وزیراعظم نے تحقیقات کا حکم دیا، الائنمنٹ تبدیل کر کے قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی، رپورٹ میں غلام سرور خان اور ذوالفقار عباس بخاری کا کوئی تذکرہ نہیں، ذوالفقار عباس بخاری نے تحقیقات مکمل ہونے
تک اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا، اینٹی کرپشن اور متعلقہ ادارے معاملے کی مزید تحقیقات کریں گے۔انکا کہنا تھا کہ جنوری 2018ءمیں اس منصوبہ کی ابتدائی الائنمنٹ منظور ہوئی، اس کے بعد 2019ءمیں اس معاملہ کے بارے میں وزیراعظم کو ایک انجینئر کی طرف سے میسیج آیا جو اسی پراجیکٹ میں کام کرتے ہیں، انہوں نے وزیراعظم کو لکھا کہ اس پراجیکٹ کی الائنمنٹ کو تبدیل کیا گیا ہے، خصوصاً اس میں سنگ جانی کا پوائنٹ ہے وہاں پر الائنمنٹ تبدیل کی گئی ہے، پیچھے سے گاڑیاں 120 کلو میٹر پر آئیں گی اور یہاں سے اسے تنگ کر کے 90 کلو میٹر پر کر دیا گیا ہے، یہ انجینئرنگ بلنڈر ہوگا اور اس سے حادثات بڑھیں گے۔ لاہور اور کئی جگہوں پر انڈر پاسز بنے ہیں وہاں پر لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کس طرح کے مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ وزیراعظم نے اس پر ابتدائی تحقیقات کی ہدایت کی اور پوچھا کہ کیا اس کی الائنمنٹ تبدیل کی گئی ہے تو اس پر انہیں کہا گیا کہ کوئی الائنمنٹ تبدیل نہیں کی گئی، وزیراعظم نے اس پر آزادانہ تحقیقات کا فیصلہ کیا، ابتدائی فیکٹ شیٹ میں پتہ چلا کہ نہ صرف الائنمنٹ تبدیل کی گئی بلکہ 29 کلو میٹر اسے اٹک کی طرف بڑھا دیا گیا، اس کا مقصد یہ ہے کہ کئی ہائوسنگ سوسائٹیوں کو اس لوپ میں شامل کرنا تھا۔ شاہد خاقان عباسی اور پی ایم ایل این کے کچھ دوسرے لوگوں نے تنقید کی کہ اربوں روپے کھائے گئے، ان لوگوں نے یہ رپورٹ پڑھنے کی
زحمت نہیں کی، اگر یہ رپورٹ پڑھ لیتے تو انہیں پتہ ہوتا کہ اربوں روپے کھائے نہیں اربوں روپے کھانے سے بچائے گئے۔یہ راولپنڈی رنگ روڈ تھی، اسے اٹک رنگ روڈ بنا دیا گیا، اس میں ایک نیا لوپ شامل کیا گیا جس کے نتیجہ میں 23 بلین روپے کے قریب اضافی زمین مختص کی جانی تھی، اٹک سے بھی بڑی زمین کو اس میں شامل کیا جانا تھا، اس کے نتیجہ میں سرکاری خزانہ کو بہت بڑا نقصان ہوتا۔ اگر تنقید کرنی ہے تو اس کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ سب سے پہلے رپورٹ پڑھی جائی،
ابتدائی رپورٹ کے مطابق اس منصوبہ کی الائنمنٹ تبدیل کی گئی جس کا مقصد کچھ لوگوں کو فائدہ پہنچانا تھا، 29 کلو میٹر کی سڑک اس میں شامل کر کے بعض ہائوسنگ سوسائٹیوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ اس سکینڈل میں نہ تو ذوالفقار عباس بخاری اور نہ ہی غلام سرور کا کوئی تذکرہ ہے، سوشل میڈیا پر وزراءکے نام دیئے گئے، ذوالفقار عباس بخاری ایک اوورسیز پاکستانی ہیں،
ا ن کا اس معاملہ سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے استعفیٰ دیا۔ جہاں تک غلام سرور کی بات ہے وہ اب بھی کہتے ہیں کہ اس ساری جگہ پر ان کی ایک انچ بھی زمین بتا دیں تو وہ اس کے ذمہ دار ہیں، اب تک کی تحقیقات بہت واضح ہیں۔ہمارا کوئی مشیر یا وزیر اس میں شامل نہیں ہے۔ جب وزیراعظم نے کچھ افسران سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ الائنمنٹ تبدیل نہیں کی، اس کے بعد معاملات آگے چلے، اینٹی کرپشن اور دیگر متعلقہ ادارے تحقیقات کرنے جا رہے ہیں، اس کے مطابق یہ معاملہ آگے بڑھے گا۔ انہوں نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کی 20-2019کی رپورٹ پارلیمان میں پیش کی جا رہی ہے۔