یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں ویگنوں، بسوں اور ٹرینوں میں سفر کرتا تھا، آپ بھی اگر کبھی اس لذت سے ہم کنار رہے ہیں تو پھر آپ اچھی طرح جانتے ہیں ٹرین میں کوئی ایک بے چارہ اخبار لے کر آتا ہے اور پھر سارا ڈبہ اس اخبار سے اپنی پیاس بجھاتا ہے، تین چار لوگ اخبار بین کے کندھوں پر سر رکھ کر خبریں پڑھنا شروع کر دیتے ہیں اور باقی “بھائی جان ذرا اندر کا صفحہ مجھے دے دیں ” کا
حکم دے کر آدھا اخبار اچک لیتے ہیں اور اخبار کا مالک تھوڑی دیر بعد اپنے “کل اثاثے” کو ڈبے میں تقسیم ہوتا دیکھ کر دیوار حسرت بن جاتا ہے۔یہ دور مجھ پر بھی آیا تھا، میں ٹرین میں سفر کررہا تھا، میرے سامنے بیٹھے صاحب نے اخبار کھولا اور پڑھنا شروع کر دیا، میرے “مفت بری” کے بھوت نے آنکھیں کھولیں اور میں بے چینی سے اخبار دیکھنے لگا، میں دور سے جتنا اخبار پڑھ سکتا تھا میں نے پڑھ لیا اور پھر عادت سے مجبور ہو کر اس شریف انسان سے ایڈیٹوریل پیج مانگ لیا، اخبار کے مالک نے مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا اور غصے سے ایڈیٹوریل پیج مجھے دے دیا، میں نے ایڈیٹوریل پیج دیکھا، مجھے وہ پھیکا سا محسوس ہوا، میں نے وہ سیٹ کی سائیڈ پررکھ دیا اور باقی اخبار کو ندیدوں کی طرح دیکھنے لگا، وہ صاحب مکمل اخبار بین تھے، وہ اخبار میں کھو کر خبریں پڑھ رہے تھے، میں نے چند لمحوں تک کروٹیں بدلیں اور پھر کھنگار کر کہا “سر ذرا اندر کا صفحہ بھی مجھے دے دیں “اس نے غصے سے اخبار نیچے کیا، سارے صفحے تہہ کیے، اٹھ کر میری سائیڈ پر پڑا ایڈیٹوریل پیج بھی اٹھایا، وہ بھی تہہ کیا، اخبار کے اندر رکھا، کھڑکی کھولی، پورا اخبار باہر پھینکا اور آنکھیں بند کر کے سیٹ کے ساتھ ٹیک لگا لی، مجھے بڑا غصہ آیا، میں سارا سفر اسے دل ہی دل میں گالیاں دیتا رہا، میں اس شخص کو انتہائی سفلا، گھٹیا اور چھوٹے دل کا سمجھتا رہا، میں اگلے دس سال تک
یہ واقعہ اپنے دوستوں کو سناتا رہا، میرے دوست بھی میری طرح غیر تہذیب یافتہ تھے۔وہ بھی دل کھول کر اس اجنبی کی روح کو ایصال ثواب پہنچاتے رہے لیکن پھر مجھے ایک مختلف شخص ملا، اس نے یہ ساری بات سنی اور آخر میں سنجیدگی سے کہا “وہ شخص ٹھیک تھا، اخبار اس کا تھا، وہ چل کر سٹال پر گیا ہو گا، اس نے اخبار خریدا ہو گا اور پھر اس نے سیٹ پر بیٹھ کر اطمینان کے ساتھ
اخبار پڑھنا شروع کیاہو گا لیکن تم نے اس کا سارا موڈ برباد کردیا چناں چہ اس نے تنازعے کی ہڈی اٹھا کر باہر پھینک دی” مجھے اس وقت اندازہ ہوا وہ شخص سفلا، گھٹیا یاچھوٹے دل کا نہیں تھا، میں تھا، میں بنیادی تہذیب ہی سے واقف نہیں تھا۔میں دوسرے کے موڈز کی ویلیو ہی سے آگاہ نہیں تھا، میں نالائق تھا اور میری نالائقی سے اس بے چارے کا موڈ خراب ہو گیا۔ یہ غلطی شاید آپ بھی کرتے ہوں،
میں بھی کرتا تھا، مجھے اس سے جہاز کے ایک اجنبی مسافر نے نکالا، میں ایک بار اسلام آباد سے کراچی جا رہا تھا، میں نے سیٹ تک پہنچنے سے پہلے تین اخبارات اٹھا لیے (یہ بھی ایک غیر مہذب عادت تھی، ہمیں جہاز میں ایک وقت میں صرف ایک اخبار اٹھانا چاہیے تاکہ دوسرے مسافروں کو بھی اخبارات مل سکیں ) میں یہ اخبارات مزے سے پڑھ رہا تھا۔میرے ساتھ بیٹھے مسافر کے پاس کوئی اخبار نہیں تھا،
وہ کھڑکی سے باہر دیکھتا رہا، میں نے جوں ہی ایک اخبار مکمل کر کے پاکٹ میں رکھا، اس صاحب نے مجھ سے اخبار مانگنے کی بجائے فضائی میزبان کو بلایا اور نہایت عزت کے ساتھ پاکٹ میں رکھے اخبار کا نام لے کر کہا “اگر جہاز میں یہ اخبار موجود ہو تو پلیز مجھے دے دیں ” میں نے فوراً کہا “یہ اخبار میرے پاس ہے، آپ لے لیجیے” وہ صاحب مسکرائے، شکریہ ادا کیا اور مجھ سے اخبار لے لیا،
وہ کون تھے میں نہیں جانتا لیکن ان کی تہذیب مجھے زندگی کا بہت بڑا لیسن دے گئی۔میری زندگی ایسے شان دار لیسنز سے بھری ہوئی ہے، میں صدقہ جاریہ سمجھ کر زندگی کے یہ سارے سبق آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں، شاید کسی کو فائدہ ہو جائے، میرے ایک جاننے والے ہیں، وہ جب پہلی بار میرے پاس تشریف لائے تو انہوں نے وقت لینے کے بعد کہا تھا “میں دو بجے آپ کے پاس آؤں گا اور اڑھائی بجے چلا جاؤں گا،
میں صرف پانی کاایک گلاس اور چائے کا ایک کپ پیوں گا اور میرے ساتھ میرا ڈرائیور اور ایک دوست ہو گا” مجھے ان کی یہ ادا اچھی لگی۔میں نے یہ تکنیک پلے باندھ لی اور اس کے بعد میں جہاں بھی جاتا ہوں میزبان سے پوچھ کر جاتا ہوں اور وہاں پہنچ کر پہلے واپسی کا وقت طے کرتا ہوں اور پھر گفتگو شروع کر تا ہوں، میرے ساتھ اگر کوئی جاننے والا ہو تو میں میزبان سے اس کے لیے باقاعدہ اجازت لیتا ہوں،
میں نے پندرہ سال پہلے ایک عرب دوست سے فون کرنے کا طریقہ سیکھا تھا، آپ فون کرنے کے بعد سب سے پہلے دوسرے سے پوچھ لیا کریں کیا آپ فارغ ہیں، آپ ڈرائیو تو نہیں کر رہے، میں آپ کو دوبارہ بھی فون کر سکتا ہوں اور مجھے آپ کے صرف ایک منٹ یا دو منٹ چاہییں وغیرہ وغیرہ۔دوسرا فون پر ہمیشہ مختصر گفتگو کریں، یہ مشین “ہور دسو، ہور سناؤ یا ہور کی حال اے” کے لیے نہیں بنی،
فون صرف ضروری بات کے لیے بنایا گیا تھا، آپ اسی طرح ہمیشہ ایک منٹ سے چھوٹا آڈیو پیغام بھجوایا کریں، کسی شخص کے پاس تین چار منٹ کا بکواس سننے کا وقت نہیں ہوتا، میں نے چند ماہ قبل تجربہ کیا انسان 13 سیکنڈز میں اپنا پورا مدعا بیان کر سکتا ہے چناں چہ ہم دوست ایک دوسرے کو 13 سیکنڈز سے بڑا پیغام نہیں بھجواتے۔اسی طرح اگر آپ فون کرنے سے پہلے ایس ایم ایس
اور واٹس ایپ کے ذریعے دوسرے سے فون کی اجازت لے لیا کریں تو یہ بھی بہت بڑی نیکی ہے کیوں کہ ہو سکتا ہے دوسرا بے چارہ نماز پڑھ رہا ہو یا اپنے والد کو لحد میں اتار رہا ہو اور ہم فون کر کے اسے عزیر بلوچ کے بارے میں بتانا شروع کر دیں، یہ ظلم ہے، ہمارے بزرگ نسیم انور بیگ فون پر ہمیشہ دوسرے شخص کے ساتھ انتہائی میٹھے، عاجز اور مہذب ہوجاتے تھے، وہ فرمایا کرتے تھے
ہمیں فون کی دوسری طرف موجود شخص کے نروس سسٹم پر رحم کرنا چاہیے۔وہ بے چارہ کس عذاب سے گزر رہا ہے ہم نہیں جانتے لہٰذا ہو سکتا ہے ہمارا میٹھا لہجہ اس کے کتنے زخم سی دے، میرے ایک دوست انتہائی سخت باپ ہیں لیکن یہ جب اپنے بچوں کو فون کرتے ہیں تو یہ اپنے تمام خلیوں میں موجود محبت کا عرق نکال کر ان سے بات کرتے ہیں لہٰذا ان کے بچے ہمیشہ اپنی بری بات یا غلطی کا اعتراف ان
سے فون پر کرتے ہیں، میں نے ان سے یہ عادت سیکھی، میں نے ایک دن سٹوڈیو سے اپنے بیٹے کو فون کیا، میرا لہجہ دیکھ کر ایک کیمرہ مین بولا “سر کیا آپ اپنے بیٹے سے بات کر رہے تھے”۔میں نے کہا “ہاں ” اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اس نے کہا “میرے والد نے پوری زندگی میرے ساتھ اس لہجے میں بات نہیں کی” میں نے قہقہہ لگا کر جواب دیا “میرے والد نے بھی اور میں نے یہ ان ہی
سے سیکھا تھا بچوں سے پیار کرنا چاہیے”۔ میرے ایک جاننے والے ارب پتی ہیں لیکن یہ دوسرے کی پلیٹ سے اٹھا کرکھانے کی علت کا شکار ہیں، یہ کافی نہیں پیتے لیکن اگر آپ کافی لیں گے تو یہ کاؤنٹر سے خالی کپ لے کر آئیں گے اور آپ سے کہیں گے “ایک گھونٹ مجھے بھی دے دیں ” اوراس کے بعد اپنا کپ آگے کر دیں گے۔یہ واردات انہوں نے تین چار مرتبہ میرے ساتھ بھی کی، میں نے
ایک دن ان کے کپ میں ایک گھونٹ کافی ڈالی اور اپنا کپ ڈسٹ بین میں پھینک کر آ گیا، وہ مائینڈ کر گئے اور میرے ساتھ آج تک ان کے تعلقات خراب ہیں، میں انہیں کیسے بتاؤں کافی ضرورت نہیں ہوتی لگژری اورکلچر ہوتا ہے اور کلچر اور لگژری کا گھونٹ لسی کی طرح دوسروں سے مانگا نہیں جاتا، اسی طرح میرا ایک معاون تھا وہ ہمیشہ ہاتھ میں خوشبو دار ٹشو رکھتا تھا اور ہاتھ صاف کر کے
دوسروں سے ملاتا تھا۔میں نے ترکی میں ایک بار ایک گائیڈ ہائر کیا، وہ واش روم سے نکل کر آدھ گھنٹہ تک کسی سے ہاتھ ملاتا تھا اور نہ کھانے کی کسی چیز کو ہاتھ لگاتا تھا، میں اگر غلطی سے اس کی طرف ہاتھ بڑھا دیتا تھا تو وہ کہتا تھا “سوری برادر مائی ہینڈ از ویٹ، آئی جسٹ کیم فرام واش روم” آپ نے اکثر لوگوں کو گاڑی میں چھینک مارتے اور سب کو پریشان کرتے بھی دیکھا ہو گا جب کہ چھینک مارنے کا
مہذب طریقہ یہ ہے آپ پہلے گاڑی کا شیشہ نیچے کریں اور پھر ٹشو پیپر یا رومال پر چھینک ماریں اور اگر یہ ممکن نہ ہوتو اپنے کوٹ یا شرٹ کا بازو ناک پر رکھ لیں تاکہ آپ کے ہاتھ آلودہ نہ ہوں۔دوسرا شرٹ یا کوٹ چھینک کو فوراً جذب کر لے گا اور کمرے میں بو نہیں پھیلے گی، آپ نے اکثر یہ بھی دیکھا ہو گا دس لوگ کھانا کھا رہے ہیں اور گیارہواں شخص آیا اور سب کے ساتھ ہاتھ ملانا شروع کر دیا
اور اپنے جراثیم کھانا کھانے والوں کے ہاتھوں اور کھانا کھانے والوں کا سالن اپنے ہاتھ پر شفٹ کرا کر دستر خوان پر بیٹھ گیا، یہ حرکت انتہائی غیرمہذب اور ناشائستہ ہے، آپ آج سے پلے باندھ لیں آپ کھانا کھاتے لوگوں سے ملاقات نہ کریں، ان کے فارغ ہونے کا انتظار کریں اور اگر مجبوری ہو تو دور سے سلام کریں اور خالی کرسی پر بیٹھ جائیں، کیوں؟کیوں کہ آپ یقین کریں آپ کا ہاتھ کسی ولی اللہ کا
ہاتھ نہیں جسے بیعت کے لیے پیش کرنا لازم ہے اور آخری عرض، آپ جب بھی کسی سے ملیں چھ فٹ کا شرعی فاصلہ رکھیں یہ انبیاءاور اولیاءدونوں کی سنت ہے، آپ ملاقات کے دوران یاد رکھیں آپ ملاقات کے لیے آئے ہیں شیطان کو کنکریاں مارنے نہیں کہ آپ کا کندھے سے کندھا اور چھاتی سے چھاتی جڑی ہونی چاہیے تاکہ شیطان آپ کے درمیان سے نکل کر بھاگ نہ سکے۔