نئی دہلی (این این آئی) بھارت کی ریاست بہار میں دماغی بخار کے نتیجے میں یکم جون سے اب تک ہلاک ہونیوالے بچوں کی تعداد 118 تک پہنچ گئی ہے جس کی ایک وجہ لیچی کو قرار دیا جارہا ہے۔غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق بھارت کی ریاست بہار کے ضلع مظفر پور کا مرکزی ہسپتال رواں ماہ کے آغاز سے لے کر اب دماغی بخار کی وباء پھوٹنے کی وجہ سے توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ڈاکٹر بچوں کی ہلاکت کی خبر کی وجوہات کی تصدیق نہیں کررہے لیکن ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ
لیچی میں پایا جانیوالا زہریلا مواد غریب خاندانوں کے ان بچوں کو متاثر کررہا ہے جو رات میں کھانا کھائے بغیر سوتے ہیں۔سری کرشنا میڈیکل کالج اور ہسپتال (ایس کے ایم سی ایچ) میں اس وقت 100سے زائد بچے زیر علاج ہیں اور بستروں کی کمی کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں،اسی ہسپتال کے کاریڈور میں کھڑے پریشان حال والدین میں 25 سالہ دلیپ ساہنی بھی شامل ہیں جو ایک مزدور ہیں، وہ اپنی ساڑھے 4 سالہ بیٹی مسکان کو بیمار پڑنے کے صرف 24 گھنٹے بعد ہسپتال لائے تھے۔انہوں نے بتایا کہ گزشتہ روز جب بچی کی والدہ نے صبح11 بجے اسے جگانے کی کوشش کی تو اس کے ہاتھ اور پاؤں سخت تھے اور جبڑے جڑے ہوئے تھے۔دلیپ ساہنی نے کہا کہ ہم اسے کجریوال ہسپتال لے کر گئے جہاں رات کو ڈاکٹروں نے ہمیں بچی کو سری کرشنا میڈیکل کالج اور ہسپتال لے جانے کی ہدایت کی، ہم اسے یہاں لیکر آئے لیکن حالت بہت زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے وہ چل بسی۔انہوں نے بتایا کہ جس رات بچی مسکان کی حالت خراب ہوئی اس رات اس نے لیچی نہیں کھائی تھی، اس نے 10 دن پہلے یہ پھل کھایا تھا۔ بھارتی مشرقی ریاست کے والدین ایکیوٹ انسیفلائٹس سینڈروم نامی بخار کی وباء پھیلنے سے پریشان ہیں جو صحت کے شعبے میں بحران کی صورتحال اختیار کرگیا ہے۔ایکیوٹ انسیفلائٹس سینڈروم ایکیوٹ انسیفلائٹس سینڈروم دماغی سوزش ہے، اس مرض کی علامات دماغ کے متاثرہ حصے کی بنیاد پر تبدیل ہوسکتی ہیں، عام طور پر سردرد، بخار، ذہنی الجھن اور جھٹکے لگنا شامل ہیں،
اس بیماری کو بہار میں مقامی زبان میں چمکی بخار کہا جاتا ہے۔حکام کے مطابق رواں ماہ کے آغاز سے لیکر اب تک 118 بچے ہلاک ہوچکے ہیں۔سری کرشنا میڈیکل کالج اور ہسپتال میں بچوں کے ڈاکٹر سری کانت پرساد نے کہا کہ ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے ہم بچوں کی جان بچانے کی ہرممکن کوشش کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کوئی اس حوالے سے بات نہیں کرتا کہ بیمار بچوں کی دیکھ بھال کیلئے کتنی راتوں سے نہیں سوئے، کوئی ان بچوں کی بات نہیں کررہا جن کا علاج ہوچکا ہے۔ڈاکٹر سری
کانت پرساد نے شکوہ کیا کہ ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کو مورد الزام ٹھہرانا آسان ہے۔انہوں نے کہا کہ ایسا اس لئے ہورہا ہے کیونکہ بچے انتہائی غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور والدین اس بات کا خیال نہیں کرپاتے کہ بچوں نے کھانا کھایا ہے یا نہیں۔انہوں نے کہا کہ بچے دھوپ میں گھومتے ہیں اور گلی سڑی یا کچی لیچی کھاتے ہیں اور خالی پیٹ سوجاتے ہیں، ایسا کرنے سے خون میں شوگر لیول میں اچانک کمی آتی ہے جس وجہ سے جھٹکے لگتے ہیں، بے ہوشی میں اعضا ڈھیلے پڑجاتے ہیں اور کپکپی طاری ہوجاتی ہے۔