اسلام آباد (این این آئی)وزیراعظم عمران خان نے ملک میں کرپش کو سب بڑا مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ احتساب کے بغیر ملک نہیں بچ سکتا ٗسیاستدانوں، عوام اور بیوروکریسی نے خود کو بدلنا ہے ٗ اگر خود کو تبدیل نہیں کریں گے تو ترقی نہیں کریں گے، کوئی چیز دنیا میں نا ممکن نہیں ٗ وزیراعظم ہاؤس کے چار ہیلی کاپٹر، گاڑیاں اور بھینسیں نیلام کر نا مائنڈ سیٹ کی تبدیلی ہے ٗہم قرضوں پر ہر روز چھ ارب روپے کا
سود ادا کررہے ہیں ٗ ملک چلانے کیلئے پیسہ نہیں ہے ٗ بیوروکریٹ اگر کام نہیں کریگا تو ہم جتنی مرضی پالیسی بنائیں کامیاب نہیں ہوں گے ٗ سب سے زیادہ مجھ سے غلطیاں ہوئیں، غلطی ہونا کوئی بری بات نہیں ٗ پوری طرح کام کریں کوئی غلطی ہوئی میں ساتھ کھڑا ہوں گا ٗآپ مجھے پسند کریں نہ کریں کوئی پرواہ نہیں، مجھے صرف کام سے غرض ہے ٗریفارمز سے نہ گھبرائیں یہ میرٹ کو پروموٹ کریگی ٗتسلیم کرتا ہوں بیوروکریٹ اپنی تنخواہ پر گزارہ نہیں کرسکتے ۔ جمعہ کو یہاں وزیراعظم آفس میں سول سرونٹس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہاکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح طورپر کہا ہے کہ اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ قوم خود بدلنے کا مصمم ارادہ نہیں کرتی۔ اگر اس آیت پر غور کیاجائے تو اللہ تعالیٰ انسانوں کو اپنے آپ کوبدلنے کی راہ دکھاتا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارے مسائل زیادہ ہیں، ملک چلانے کے لئے پیسہ نہیں ہے۔ پاکستان کی 60 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔ پاکستان نے اب تک جتنے قرضے لئے ہیں وہ دولت پیدا کرنے کی بجائے نقصان پر جارہے ہیں۔ اورنج ٹرین اور اس طرح کے دیگر منصوبوں کے لئے قرضے لئے گئے جن پر سود دے رہے ہیں۔ قوم کو قرضوں کے کلاسیکی ٹریپ سے نکلنے کے لئے اپنے آپ کو بدلنا ہو گا۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ آج پاکستان کو جتنے چیلنجز پیش ہیں ماضی میں اس کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔ 10 برسوں میں قرضوںکا حجم 6 ٹریلین سے بڑھ کر 30 ٹریلین تک روپے تک پہنچ چکاہے۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان صرف
سود کی مد میں روزانہ 6 ارب روپے دے رہا ہے جس کے نتیجہ میں ترقیاتی منصوبوں اور دیگر ضروری ملکی امور کے لئے وسائل کی فراہمی کے مسائل سامنے آتے ہیں تاہم اس سے نکلنے کے راستے موجود ہیں۔انہوں نے کہا کہ سیاستدانوں، حکمرانوں اور عوام کو اپنے آپ کو بدلنا ہو گا، دنیا میں کوئی چیز ناممکن نہیں ہے۔ میں ساری زندگی یہی سنتا آیا ہوں کہ میں فاسٹ بائولر نہیں بن سکتا تھا ، ورلڈ کپ نہیں جیت سکتے تھے،
شوکت خانم ہسپتال نہیں بناسکتے اور ملک میں دو پارٹی نظام تبدیل نہیں کرسکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کوئی ناممکن چیزیں نہیں تھیں لیکن ضروری ہے کہ اس کے لئے اپنے آپ کو اور اپنی سوچ کو بدلا جائے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ جب سے یہ ملک بنا ہے ہماری اشرافیہ کا طرز عمل وہی ہے جو انگریزوں نے مرتب کیا تھا، ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ انگریزوں نے غلاموں پر حکومت کی تھی، وہ ہندوستان کے پیسے اور وسائل پر
شاہانہ انداز میں حکمرانی کرتے رہے۔ جب ہمیں آزادی ملی تو اصولاً اس طرز عمل کو تبدیل کرنا چاہیے تھا۔ قومیں چیلنجوں سے نکلتی ہیں، جرمنی اور جاپان کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، دوسری عالمی جنگ میں دونوں قومیں تباہ ہو گئی تھیں لیکن 10 برسوں میں وہ مشکل صورتحال سے باہر نکل آئیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ جب قوم یہ فیصلہ کرتی ہے کہ یہ حکومت ہماری ہے ، یہ ملک ہمارا ہے، تو تبدیلی لازمی آتی ہے۔
دنیا کی کوئی حکومت اور فوج عوام کی طاقت اور حمایت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی کیونکہ 6 لاکھ کی فوج 20 کروڑ لوگوں کی فوج بن جاتی ہے، تبدیلی کے لئے ہمیں نو آبادیاتی ذہنیت سے باہر نکلنا ہو گا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان میں کم عمر بچوں کی شرح اموات زیادہ ہے، ڈلیوری کے دوران خواتین کی اموات کے اعداد وشمار خوف ناک ہیں، اسی طرح ناقص غذائیت کی وجہ سے ہمارے 45 فیصد بچے ذہنی اور
جسمانی نشوونما نہیں پاتے، مجھے حیرت ہورہی ہے کہ اس پر احتجاج کیوں نہیں ہوا کہ ہمارے 45 فیصد بچے مناسب ذہنی اور جسمانی نشوونما سے محروم ہیں۔ ہم اپنے بچوںکو اچھی غذائیت نہیں دے سکتے، اڑھائی کروڑ کے قریب بچے سکولوں میں نہیں جارہے، ان خوفناک اعدادوشمار کے باوجود ہم نے ابھی تک انگریزوں کا نظام ختم نہیں کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ وزیراعظم ہائوس کی 100 کے قریب گاڑیوں، 4 ہیلی کاپٹروں، 6
بھینسوں کی نیلامی علامتی اقدامات ہیں تاکہ ہم نوآبادیاتی ذہنیت سے نکل پائیں۔ وزیراعظم نے کہاکہ تبدیلی اس وقت آئے گی جب ہمیں عوام کے ٹیکسوں سے جمع ایک ایک روپے کے خرچ کا احساس ہو۔ جب ہم ایک ایک روپیہ خرچ کریں تو ہمیں یہ احساس ہو کہ ہمارے ملک کے اڑھائی کروڑ بچے سکولوں میں نہیں جارہے۔ وزیر اعظم نے ترقی کے لئے سنگاپور ماڈل کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک چھوٹا سا ملک ہونے کے باوجود سنگاپور کی
برآمدات 300 ارب ڈالر سالانہ سے زیادہ ہیں، سنگاپورکی یونیورسٹیاں بین الاقوامی رینکنگ میں شامل ہیں۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ پاکستان کی کتنی یونیورسٹیاں 500 کی عالمی رینکنگ میں شامل ہیں۔ وزیر اعظم نے کہاکہ تبدیلی کے لئے سیاسی قیادت، عوام اور بیوروکریسی، جو حکومت کا انتظامی بازو ہے، کو اپنے آپ کو تبدیل کرناہو گا۔ وزیرا عظم نے کہا کہ احتساب ہمارے اسلوب حکمرانی کا بنیادی ستون ہوگا۔ بد قسمتی سے
ملک میں پیسے نکالنے کے لئے اداروں میں من پسندافراد کو بھرتی کرکے انہیں تباہ کردیاجاتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر آج مغربی جمہوریت میں شفافیت ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہاں ادارے مضبوط ہیں۔ ہمیں احتساب کے عمل کو مضبوط بنانے کے لئے کام کرنا ہو گا کیونکہ اسی سے ادارے مضبوط ہوں گے ۔ وزیر اعظم نے کہاکہ بیوروکریسی کے حوالے سے جو شکایات آتی ہیں ان کی صحیح طریقے تحقیقات ہونی چاہیے،
ہم بیورو کریسی کو ذلیل نہیں کرناچاہتے کیونکہ بیوروکریسی کے بغیر ہم اصلاحات کے پروگرام کو آگے نہیں بڑھا سکتے۔ وزیر اعظم نے سول سرونٹس سے کہا کہ وہ اسلوب حکمرانی کی بہتری کے لئے چانسز لیں، غلطیاں ہوتی ہیں، غلطیاں ہونے اور مالیاتی چوری کے درمیان تفریق کرنا چاہیے۔ ہماری حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ بیورو کریسی کو سیاسی دبائو سے آزاد کیا جائے۔ وزیراعظم نے کہاکہ سول سرونٹس کی
سیاسی وابستگی ان کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ حکومت کا مسئلہ کارکردگی کا ہے۔ سرکاری اہلکار کارکردگی دکھائیں، ہم ان کا ساتھ دیں گے۔ وزیر اعظم نے کہاکہ ماضی میں پاکستان کی بیوروکریسی اور سول سرونٹس کا معیار بلند تھا لیکن سیاسی مداخلت کی وجہ سے بیوروکریسی کی ترجیحات تبدیل ہو گئیں۔ انہوں نے کہاکہ خیبر پختونخوا میں ہم نے پولیس کو سیاسی دبائو اور مداخلت سے علیحدہ کیا اور اس ضمن میں ہم نے
اپنے ارکان اسمبلی کی شکایات کا بھی مقابلہ کیا جن کا کہنا تھا کہ ہم الیکشن ہار جائیں گے لیکن ہم نے وہ دبائو برداشت کیا۔ آج خیبر پختونخوا کی پولیس مثالی پولیس ہے، یہی نظام پنجاب، بلوچستان اور دیگر صوبوں میں بھی لائیں گے۔ اسی طرح ہم نے کے پی کے میں بھرتیوں کے لئے این ٹی ایس کا نظام لاگو کیا اور ٹرانسفر اور پوسٹنگ کے سارے امور آئی جی کے سپرد کئے جس سے بہتری آئی ۔ وزیراعظم نے کہاکہ
انہوں نے شوکت خانم چلانے سے بہت کچھ سیکھا ہے، ا س کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں پر میرٹ کی بالادستی کا نظام قائم کیا گیا، میں خودمداخلت نہیں کرتا۔ جب آپ میرٹ پر کام کرتے ہیں تو ادارے کامیاب ہوتے ہیں اور وہ ترقی کرتے ہیں ۔ وزیر اعظم نے سول سرونٹس سے کہا کہ ہم آپ کو سیاسی دبائو سے بچائیں گے اور آپ کوتحفظ دیں گے ۔ ڈاکٹر عشرت حسین کی قیادت میں جواصلاحات لائی جا رہی ہیں ہمار ی کوشش ہے کہ
یہ اصلاحات عالمی معیارکے مطابق ہوں ۔ سول سرونٹس کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اصلاحات میں ہم میرٹ کی بالادستی پر زور دیں گے۔ وزیراعظم نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے سٹرکچر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ 1935ء میں ایک کمشنر اپنی ایک مہینے کی تنخواہ سے 70 تولہ سونا خریدسکتا تھا۔ 1950ء میں میرے والد صاحب ایک ماہ کی تنخواہ سے گاڑی خرید سکتے تھے۔ اس وقت بیوروکریٹس کی
تنخواہ اور مشاہرہ اتنا ہوتا تھا کہ انہیں کوئی لالچ اور ترغیب نہیں ہوتی تھی۔ مجھے اندازہ ہے کہ بیوروکریٹس اس تنخواہ پر گزارا نہیں کرسکتے ۔ ایچی سن کالج میں میرا ایک ہم جماعت بیوروکریٹ 10 سال تک ٹاپر رہا تھا۔ ایک مرتبہ میں نے ان سے پوچھا تھا کہ کیا اس کے بچے ایچی سن میں پڑھ رہے ہیں تو انہوں نے جواب دیاکہ وہ افورڈ نہیں کر سکتے۔ عمران خان نے کہا کہ مجھے آپ کی مشکلات کا اندازہ ہے، یہ مشکل وقت ہے،
آپ یہ مشکل وقت برداشت کریں، یہ مشکلات مستقل نہیں ہیں۔ ہمارے پاس استعداد کار موجود ہے، ہم گورننس کو ٹھیک کرکے آگے بڑھ سکتے ہیں، یہ قوم بڑی تیزی سے اوپر جائے گی۔ وزیر اعظم نے کہاکہ پاکستان کے پاس استعداد کار موجود ہے، ہمارے پاس اوورسیز پاکستانی ہیں جن کے پاس سرمایہ موجود ہے، وہ صرف اسلوب حکمرانی کی وجہ سے پاکستان نہیں آتے۔ ہم نے دو سالوں میں گورننس کا نظام بہتر بنانا ہے،
اگر ہم نے یہ سسٹم ٹھیک کرلیا تو تنخواہ دار طبقے کے لئے اتنی مراعات ہوںگی کہ پھر انہیں اپنے بچوں کو معیاری تعلیم کی فکرنہیں ہوگی۔ سنگا پور نے اسی ماڈل سے ترقی کی ہے۔ وزیراعظم نے کہاکہ بیوروکریسی اور سرکاری ملازمین کی تنخواہیں مناسب نہیں لیکن اگر آپ دو سال گزارا کرنے کا فیصلہ کرلیں تو ملک میں اتنا پیسہ آئے گاکہ یہاں قرض اور بیروزگاری کے مسائل نہیں ہوں گے اور پاکستان سرمایہ کاری اور سیاحوں کے لئے
اہم ترین مرکز ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ وہ سرکاری افسران اور ملازمین کے مسائل کو سمجھتے ہیں ہم پورا زور لگائیں گے کہ آپ کو سیاسی مداخلت اور دبائو سے آزاد رکھیں اور آپ کو عزت ملے میری خواہش ہے کہ آپ حکومت کے اصلاحات کے پروگرام کی مکمل حمایت کریں۔