واشنگٹن( آن لائن ) امریکی صحافی باب ووڈ ورڈ نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ گزشتہ برس شام میں مبینہ طور پر حکومتی افواج کی جانب سے کیے گئے کیمیائی حملے کے بعد شامی صدر بشارالاسد کو قتل کروانا چاہتے تھے۔ صحافی باب ووڈ ورڈ ہیں جو واٹر گیٹ اسکینڈل منظر عام پر لائے تھے جس کے نتیجے میں امریکی صدر رچرڈ نکسن کو عہدہ صدارت سے ہاتھ دھونے پڑے تھے۔
فیئر:ٹرمپ ان دا ائٹ ہاس نامی کتاب میں بزرگ امریکی صحافی ووڈ ورڈ نے لکھا ہے کہ امریکی ڈیفنس سیکریٹری جیمز میٹس اور اقتصادی مشیر گرے کوہن دیگر ماتحتوں کی طرح امریکی صدر کے احکامات نظر انداز کرتے حتیٰ کہ ان کی میز سے کاغذات چرانے کے بھی مرتکب ہیں۔اس کے ساتھ انہوں نے تذکرہ کیا کہ جیمز میٹس نے تیسری جنگِ عظیم سے بچنے کے لیے امریکی صدر کو جنوبی کوریا میں فوج رکھنے پر قائل کیا اور اس کے بعد اپنے ساتھیوں سے یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ ٹرمپ کی سمجھنے کی صلاحیت پانچویں یا چھٹی جماعت کے 10 سے 11 سالہ طالبعلم کے برابر ہے۔اپنے ذرائع بتانے سے گریز کرتے ہوئے ووڈ ورڈ کا کہنا تھا کہ کتاب تحریر کرنے کے سلسلے میں ریسرچ کرنے کے لیے انہوں نے ٹرمپ حکومت سے وابستہ رہنے والے سابق اور حاضر عہدیداروں سے گفتگو کی۔کتاب میں انہوں نے بیان کیا کہ ٹرمپ اپنی ٹیم کے اعلیٰ عہدیداروں کو اکثر تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں جس میں انہوں نے اٹارنی جنرل جیف سیشنز کے لیے دماغی طور پر مفلوج اور گونگے تک کہا جبکہ سابق چیف آف اسٹاف رینس پریبس کو ایک چھوٹے چوہے سے تشبیہہ دی۔ووڈورڈ کے مطابق ٹرمپ جس قسم کی بدزبانی کااستعمال کرتے ہیں بعد ازاں جواب میں ان کے ماتحت اور کابینہ کے ا راکین نجی طور پر انہیں اسی قسم کے القابات سے پکارتے ہیں اور وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف جنرل جان کیلی اپنے ساتھیوں کو یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ صدر بددماغ اور بے وقوف شخص ہیں۔
اس کے ساتھ انہوں نے رقم کیا کہ اپریل 2017 میں شام میں مبینہ طور پر حکومتی فوج کی جانب سے کیے گئے کیمیائی حملے کے بعد انہوں نے پینٹاگون چیف کو کال کی اور بشارالاسد کو قتل کرنے کے احکامات دیے جس پر جیمز میٹس نے حامی بھرلی اور فون کال کے اختتام کے بعد اپنے ماتحتوں کو اس کے بجائے ایک تادیبی فضائی حملہ کرنے کا حکم دیا۔ووڈورڈ کی کتاب میں امریکی حکومت کے بارے میں کیے جانے والے انکشافات کے بعد وائٹ ہاس نے کتاب کے مواد کو من گھڑت کہانیوں پر مبنی قرار دے دیا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حسب روایت ٹوئٹر کا سہارا لیا اور یکے بعد دیگرے متعدد ٹوئٹس کے ذریعے اپنے ماتحتوں کے بیانات شیئر کیے۔