لاہور (نیوز ڈیسک)چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل (ر) مزمل حسین نے کہا ہے کہ پانی کی قلت دور کرنے کے لیے پختہ سیاسی عزم کے ساتھ گورننس کو بہتر بنانا ہوگا،پانی کی قلت دور نہ ہوئی تو 10 سے 15 سال بعد خانہ جنگی کی کیفیت کا سامنا ہوگا،پاکستان میں ڈیموں کی مخالف لابی سرگرم ہے جو ڈونر اداروں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے،پانی کو زخیرہ کرنے کی گنجائش بڑھانے کے لیے
کالا باغ سمیت دیگر تمام مجوزہ ڈیموں کی تعمیر ناگزیر ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے فیڈریشن آف پاکستان چیمبر زآف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی ) میں ’’پاکستان میں پانی کی قلت ‘‘کے عنوان سے راؤنڈ ٹیبل کانفرنس سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ چیئرمین واپڈا مزمل حسین نے کہا کہ واپڈا کے پاس آبی اور توانائی پراجیکٹس مکمل کرنے کی بھرپور صلاحیت ہے،چھوٹے چھوٹے منصوبوں کے لیے سرخ فیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے،پلاننگ کمیشن سیاسی مقاصد کے پراجیکٹ کی منظوری دیتا ہے، پلاننگ کمیشن اپنی استعداد سے زیادہ پراجیکٹس پر کام کرتا ہے جو کئی سال کی تاخیر کا شکار ہوتے ہیں۔ ایف پی سی سی آئی کے نائب صدروریجنل چیئرمین چوہدری عرفان یوسف نے کہاکہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جن کو پانی کی قلت جیسے مسائل درپیش ہیں۔مختلف ریسرچزکے مطابق 2025تک پاکستان کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہو گا۔تبدیل ہوتا موسم،پانی کا بے جا استعمال ،کدائی کے غیر مناسب طریقے،پانی کو دوبارہ استعمال کے قابل بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کا فقدان اور ڈیمز کا نا بننا انتہائی تشویشناک ہے۔سارک چیمبر کے سینئر نائب صدر افتخار علی ملک نے کہاکہ پانی کے استعمال کے حوالے سے سمینار،ورکشاپ،سٹیزن آگاہی پروگرامز کی اشد ضرورت ہے۔ ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر شفیق انجم اور شبنم ظفر
نے کہاکہ پاکستان کا نہری نظام دنیا کے بہترین نہری نظاموں میں شمار ہوتا ہے۔تاہم زرعی آبپاشی کے نظام کو جدید طریقوں پر استوار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔سی پیک منصوبوں میں ڈیمز اور پانی کو سٹور کرنے جیسے مسائل کو مد نظر رکھنا چاہیے۔واپڈا کے چیئرمین نے مزید کہاکہ واپڈا نے 1958سے 1976 تک پلاننگ کمیشن اور وزارت پانی وبجلی کے بغیر بڑے اور تاریخی منصوبے تعمیر کیے۔
انکا کہنا تھا کہ پانی کی قلت پر قابو پانے کیلئے ذخیرہ کی گنجائش کو دگنا کر ناہو گا،پاکستان میں 80فیصد پانی صرف 100روز کے لیے دستیاب ہوتا ہے،145ملین ہیکٹر میں سے 3ملین ہیکٹر پانی بھی محفوظ کر لیا جائے تو پینے کے پانی کی قلت دور کی جا سکتی ہے،زراعت کو پانی کے موثر استعمال اور جدید طور طریقے اختیار کرنا ہوں گئے،زرعی شعبے کو پانی کی مسلسل فراہمی کیلئے بھاشا،کالا باغ اور مہمند ڈیمز کی تعمیر انتہائی ضروری ہے ورنہ مستقبل میں انرجی ،پانی ،فوڈز اور دیگر ضروری اشیاء کے حصول کیلئے سول وار بھی ہو سکتی ہے۔