اسلام آباد(آئی این پی )سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس، ریونیو اور اقتصادی امور میں ایف بی آر کے 198افسران کے خلاف چار سال سے کاروائی نہ کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ،2014کو کرپڑ افسران کے خلاف کاروائی کا آغاز ہوا جو اب تک مکمل نہیں کی جا سکی، اس سے پہلے قائم کمیٹی نے ان افراد کے خلاف کاروائی کرنے کا حکم دیا تھا جس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا، کاروائی کرنے کیلئے مزید 3ماہ کا وقت دیا جائے،
چینی کمپنی سائنو ہائیڈرو کارپوریشن کو ٹیکس سے استثنیٰ کا سرٹیفکیٹ نہیں دیا جا رہا، غیر ملکی کمپنیوں کو پاکستان میں ٹیکس سے استثنا دینے کیلئے 12ماہ کا سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے، نگران حکومت نے گزشتہ حکومت کے بنائیفاٹا، پاٹا میں ٹیکس استثنیٰکے قوانین پر عملدرآمد کرانے کیلئے سمری ایف بی آر کو بھجوائی، گزشتہ بجٹ کی منظوری کے 7روز بعدکابینہ کی منظوری سے کپاس پر 5فیصد کسٹم ڈیوٹی عائد کر دی گئی، کمیٹی ارکان نے کہاکہ حکومتی پالیسیوں کے اندر استحکام ہوگا تو ہی گورننس سسٹم بہتر ہوگا، بیوروکریسی سینیٹ کمیٹی کی سفارشات پر کو بھی اہمیت نہیں دیتی،4سال سے ایف بی آر میں کرپٹ افراد کے خلاف کاروائی مکمل نہیں ہوسکی، ادارے کام نہ کر کے اپنی ساکھ خود تباہ کرتے ہیں، نگران حکومت نے کس قانون کے تحت سابق حکومت کے بنائے قانون میں ردوبدل ۔بدھ کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس، ریونیو اور اقتصادی امور کا اجلاس سینیٹر فاروق ایچ نائیک کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں ہوا۔ اجلاس میں سینیٹر مصدق ملک، سینیٹر دلاور خان، سینیٹر محسن عزیر، سینیٹرخانزادہ خان، سینیٹر شمیم آفریدی، وزارت فنانس، ایف بی آر، قانون و انصاف اور سٹیٹ بنک کے حکام نے شرکت کی۔ کمیٹی نے اجلاس میں گورنر سٹیٹ بنک اور وزیر اقتصادی امور اسد عمر کی غیر حاضری پر اظہار برہمی کیا۔
سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اسد عمر تجربہ کار وزیر ہیں۔ وہ کمیٹی کے اجلاسوں میں شرکت کریں تاکہ ہم ان کے تجربے سے بھی فائدہ اٹھا سکیں جس سے حکومتی معاملات حل کرنے میں آسانی ہوگی۔ کمیٹی کے اندر چینی کمپنی سائنو ہائیڈرو کارپوریشن کے ٹیکس معاملات پر ایف بی آر حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ چینی کمپنی پاکستان کے اندر کام کرنے کیلئے ٹیکس سے استثنیٰ کا سرٹیفکیٹ مانگ رہی ہے ۔ اس سے قبل کمپنی کو 2016میں ایک سال کیلئے سرٹیکفکیٹ دیا تھا
جس کی بعد ازاں 6ماہ کیلئے تجدید کر دی گئی تھی۔ اس کے بعد کمشنر نے کمپنی کی سرٹیفکیٹ کی درخواست مسترد کر دی ۔ اب سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا اختیار چیف کمشنر کے پاس ہے۔ کمیٹی نے اس حوالے سے عدالت میں درخواست بھی دائر کی ہے جس پر سماعت جاری ہے۔اس پر کمیٹی نے سائنو ہائیڈرو کارپوریشن کے ٹیکس کا معاملہ ایک ماہ کے اندر قانون کے مطابق حل کر کے رپورٹ طلب کر لی۔کمیٹی کے اندر ایف بی آر کے اندر کرپٹ افراد کے خلاف کاروائی نہ کرنے کا معالہ زیر غور آیا۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایف بی آر کے 198افراد کے خلاف کرپشن کے مقدمات ہیں۔ اس سے پہلے قائم کمیٹی نے ان افراد کے خلاف کاروائی کرنے کا حکم دیا تھا جس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ اس پر کمیٹی اراکین نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ بیوروکریسی کمیٹی کی سفارشات پر کو بھی اہمیت نہیں دیتی۔ فروری2018میں کمیٹی نے حکم دیا تھا اور آج6ماہ بعد آکر پھر 3ماہ مانگ رہے ہیں۔2014میں کرپٹ افسران کے خلاف انکوائری شروع ہوئی اور چار سال گزرنے کے باوجود اس پر عمل درآمد نہیں کیا جا سکا۔
ادارے خود اپنی ساکھ تباہ کر رہے ہیں۔ کمیٹی نے ایف بی آر کو 3ماہ کے اندر انکوائری مکمل کر کیافسران کے خلاف کے خلاف کاروائی کرنے کا حکم دیا اور چیئرمین ایف بی آر کو آئندہ سماعت پر عملدرآمد رپورٹ کے ساتھ طلب کر لیا۔ کمیٹی کے اندر پاٹا، فاٹا کے اندر25ویں ترمیم کے بعد ٹیکس استثنیٰ کے معاملات بھی زیر غور آئے۔ ایف بی آر حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ نگران حکومت نے گزشتہ حکومت کے بنائے ہوئے قوانین پر عملدرآمد کرانے کیلئے ایک کمیٹی بنائی تھی
جس نے ٹیکس استثنیٰ میں تھوڑا بہت ردو بدل کیا اور ان قوانین پر عملدرآمد کرانے کیلئے سمری ایف بی آر کو بھجوائی۔ نگران وزیر اعظم نے اس معاملے کو نگران کابینہ میں پیش کیا ۔ اب یہ نئی حکومت کی صوابدید ہے کہ وہ اس معاملے کو کیسے آگے لیکر بڑھتے ہیں۔ اس پر سینیٹر مصدق ملک نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ حکومت نے فاٹا، پاٹا میں ٹیکس استثنیٰ کے حوالے سے جو قانون بنایا نگران حکومت کس قانون کے تحت اس میں رد و بدل کر سکتی ہے۔
نگران حکومت کا کام صرف حکومت کے امور چلانا تھا قانون سازی کرنا نہیں۔ اس پر کمیٹی کو بتایا گیا کہ نگران حکومت نے ٹیکس استثنیٰ کے قانون میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں کی بلکہ گزشتہ حکومت کے بنائے قانون پر عملدرآمد کو شروع کیا۔ کمیٹی نے فاٹا ، پاٹا کے انضمام سے قبل ٹیکس کی صورتحال پر بریفنگ طلب کر لی۔ کمیٹی کے اندر کاپر ، کپاس اور دیگر اشی�أ پر اچانک کسٹم ڈیوٹی عائد کیے جانے کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ گزشتہ بجٹ کی منظوری کے 7روز بعد
کپاس پر 5فیصد کسٹم ڈیوٹی عائد کر دی گئی۔کابینہ نے باقاعدہ اس حوالے سے فیصلہ کا تھا جس پر ہم نے صرف عملدرآمد کرنا تھا۔اس پر سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ حکومتی پالیسیوں کے اندر استحکام ہونا چاہیے۔ یہ نہیں کہ کپاس کا موسم ہے توکپاس پر ٹیرف عائد کر دیا جائے اور جب کپاس کی فصل نہیں آرہی مارکیٹ میں تو ڈیوٹی ختم کر دی جائے۔ اس پر کمیٹی نے سفارش کی کہ بجٹ منظوری کے بعد اگر اشی�أ پر عائد کسٹم ڈیوٹی میں ردوبدل کرنے کی ضرورت پیش آئے تو معاملہ پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا جائے اور پارلیمنٹ فیصلہ کرے۔