بدھ‬‮ ، 27 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

’’پاکستان کو بھی ایک پاگل کی ضرورت ہے‘‘ ’’امریکہ کو ایک دشت اور ایک صحر سے دنیا کی عظیم ترین طاقت مجھ جیسے پاگلوں نے بنایا ہے‘‘آپ جیسے عقلمندوں نے نہیں۔ عقلمندی حکمران رہتی تو پیراشوٹ سے پہلی چھلانگ کوئی نہیں لگاتا۔ پہلی چھلانگ ہمیشہ کوئی پاگل ہی لگایا کرتا ہے اور پھر دوسروں کو بھی پاگل پن سے پیار ہو جاتا ہے۔

datetime 18  جولائی  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)غلام اکبر پاکستانی صحافت کا ایک نہایت اعلی ستارہ ، وہ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ مجھے 1986کا زمانہ یاد آرہا ہے۔ میں ان دنوں امریکہ گیا ہوا تھا۔ گوربا چوف اور ریگن کے درمیان شروع ہونیوالی’’گرمجوشی‘‘کے ایام تھے۔ شکاگو میں دنیا کی سب سے بلند عمارت تعمیر ہو چکی تھی اور نیویارک کی ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ سے یہ اعزاز چھن چکا تھا۔

نیویارک کے عالمی شہرت یافتہ بزنس مین ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ وہ ایک سو پچاس منزلہ عمارت بنا کر چھنا ہوا اعزاز دوبارہ’’اپنے شہر‘‘میں واپس لائیں گے۔ ان کے اس اعلان پر ماہرین ماحولیات نے سکت تنقید کی تھی۔ اس ضمن میں ایک ٹی وی چینل پر ٹرمپ کا انٹرویو نشر ہوا جسے میں نے دیکھا اور سنا۔ باتوں ہی باتوں میں سوال کرنے والے صحافی نے ٹرمپ سے پوچھا ۔ ’’کچھ ایسے منصوبے کو شروع کرنا پاگل پن نہیں ہے جس کی کوئی افادیت نظر نہیں آرہی سوائے اس کے کہ نیو یارک کو اس کا کھویا ہوا اعزاز واپس مل جائے گا۔ ٹرمپ نے غصے سے ان صاحب کی طرف دیکھا اور بڑے خشمگیں لہجے میں جواب دیا۔’’امریکہ کو ایک دشت اور ایک صحر سے دنیا کی عظیم ترین طاقت مجھ جیسے پاگلوں نے بنایا ہے‘‘آپ جیسے عقلمندوں نے نہیں۔ عقلمندی حکمران رہتی تو پیراشوٹ سے پہلی چھلانگ کوئی نہیں لگاتا۔ پہلی چھلانگ ہمیشہ کوئی پاگل ہی لگایا کرتا ہے اور پھر دوسروں کو بھی پاگل پن سے پیار ہو جاتا ہے۔میرے ذہن پر ٹرمپ کے یہ الفاظ نقش ہو کر رہ گئے۔ تاریخ واقعی تبدیل ہونے کیلئے ’’ایک‘‘ہی بڑی اور جرأت مندانہ جست کی محتاج ہوا کرتی ہے اور جرأت ایک ایسی اصطلاح ہے جس کا ایک مفہوم’’پاگل پن‘‘بھی ہوتا ہے۔ میں یہاں ایک ایسے ’’پاگل‘‘کی مثال دینا چاہوں گا جس کے ’’پاگل پن‘‘نے بارہ ہزار نفوس پر مشتمل ایک فوج کو ہسپانیہ کا حکمران بنا دیا۔ اس ’’پاگل‘‘کا نام طارق بن زیاد تھا۔ بحرِ اوقیانوس عبور کرنے کے بعد تاریخ اسلام کے اس بطل جلیل نے جب تمام کشتیاں جلا ڈالنے کا حکم دیا تو فوج میں ایک کھلبلی مچ گئی۔ ’’میرے بھائیو۔۔ ہم یہاں واپس جانے کیلئے نہیں آئے۔ اب ہمارا جینا مرنا اسی سرزمین پر ہو گا جہاں ہم قدم رکھ چکے ہیں۔‘‘طارق بن زیادہ نے وضاحت کی۔ پاکستان کو اپنی عظیم تقدیر کے تقاضے پورے کرنے کیلئے بس ایک فیصلے کی ہی ضرورت ہے ۔ یا پھر اس رجل عظیم کی جو یہ فیصلہ کرے گا۔ کشتیاں جلا ڈالنے کا فیصلہ!

موضوعات:



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…