نیویارک(این این آئی)گزشتہ سال خلائی تحقیق کے حوالے سے کافی بہتر ثابت ہوا تھا چوں کہ گزشتہ سال پہلی بار خواتین خلانوردوں نے تنہا خلائی اسٹیشن کے گرد چہل قدمی کی تھی۔سال 2019 میں ہی پہلی بار ایک خاتون خلاباز کرسٹینا کوچ نے طویل عرصے تک خلا میں رہنے کا ریکارڈ بھی بنایا تھا۔اور اسی ہی خاتون خلا نورد نے سال 2019 کے آخری مہینے دسمبر میں کرسمس کے موقع پر
پہلی بار خلا میں غذا تیار کی تھی تاہم کھانے کی تیاری کے وقت اس کی تصدیق نہیں کی گئی تھی۔لیکن اب پہلی بار امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے نے خلا میں تیار کی گئی غذا کی زمین پر واپسی کی تصدیق کردی۔خلائی نشریاتی ادارے کے مطابق گزشتہ برس کے آخر میں عالمی خلائی اسٹیشن پر تیار کی گئی پانچ میں سے تین غذائیں رواں ماہ 7 جنوری کو نجی خلائی آلات بنانے والی کمپنی اسپیس ایکس کے راکٹ کے ذریعے زمین پر پہنچیں تھیں۔مذکورہ غذاؤں کو عالمی خلائی اسٹیشن میں موجود خلانورد خاتون کرسٹینا کوچ نے دیگر ساتھیوں کی مدد سے ایک خاص قسم کے مائیکرو اوون میں تیار کیا تھا۔خلائی نشریاتی ادارے نے اپنی تازہ رپورٹ میں خلا میں تیار کی گئی غذاؤں سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے بتایا کہ ان غذاؤں کو تیار کرنے میں 2 گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگا۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ خلا میں خلانوردوں نے 5 مختلف غذائیں تیار کیں اور مذکورہ غذاؤں کو انہوں نے الگ الگ وقت تک خاص مائیکرو اوون میں رکھ کر تیار کیا۔پانچوں غذاؤں کو خلانوردوں نے خاص قسم کے درجہ حرارت پر 16 منٹ سے 130 منٹ کے دورانیے تک پکایا اور پھر تیار کی گئی غذاؤں کو جائزہ لیا گیا۔رپورٹ کے مطابق زمین پر مائیکرو اوون میں غذا تیار کرنے کے لیے 150 سینٹی گریڈ کا درجہ حرارت درکار ہوتا ہے تاہم خلا میں 300 سینٹی گریڈ کا درجہ حرارت درکار تھا۔خلانوردوں نے خاص مائیکرو اوون میں 300 سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت میں پانچ مختلف غذاؤں کو پانچ مختلف اوقات کے لیے مائیکرو اوون میں تیار کیا اور سب سے بہترین غذا 130 منٹ تیار میں ہوئی جسے ڈھنڈا کرنے کے لیے 10 سے 25 منٹ کے درمیان رکھا گیا۔اس غذا سے قبل کم وقت میں تیار کی گئی غذائیں کچی تھیں اور ان میں مکمل تیار غذا جیسی خوشبو بھی نہیں تھی۔تیاری کے بعد زمین پر بھیجی گئیں پانچ میں سے تین غذاؤں کا ماہرین جائزہ لیں گے اور اس کے بعد ممکنہ طور پر ان غذاؤں کو محفوظ کرکے عام لوگوں کو دکھانے کے لیے رکھ دیا جائے گا۔