ایمسٹرڈیم(این این آئی) سائنسدانوں نے اسپین سے ایران تک کے پہاڑی سلسلوں میں اس گمشدہ براعظم کے حصوں کو دریافت کرلیا۔نیشنل جیوگرافک کی رپورٹ کے مطابق ہماری زمین کی 24 کروڑ سال پرانی تاریخ کو دوبارہ تیار کیا گیا اور بحیرہ روم کی ٹیکٹونیک یا ارضیاتی تاریخ کو بیان کیا گیا۔نیشنل جیوگرافک کی رپورٹ کے مطابق گریٹر ایڈریا نامی یہ براعظم یورپ سے ٹکرانے کے بعد زمین اور سمندر کے اندر دفن گیا ہوگیا۔
جبکہ اس کا ملبہ پہاڑوں کی شکل اختیار کرگیا اور کروڑوں سال بعد بھی یہ باقیات موجود ہیں۔سائنسدانوں نے اسپین سے ایران تک کے پہاڑی سلسلوں میں اس گمشدہ براعظم کے حصوں کو دریافت کیا ہے۔تحقیق سے انکشاف ہوا کہ گریٹر ایڈریا سے ٹکرائو کے بعد ممکنہ طور پر اٹلی، ترکی، یونان اور جنوب مشرقی یورپ میں پہاڑی سلسلے بنے۔تحقیقی ٹیم کے قائد اور نیدرلینڈز کی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈووی وان ہینسبرگن نے بتایا کہ بحیرہ روم کا خطرہ درحقیقت ارضیاتی ملغوبہ ہے، ہر چیز جھکی، ٹوٹی ہوئی اور بکھری ہوئی ہے۔گریٹر ایڈریا کبھی زمانہ قدیم کے سپر براعظم گونڈوانا کا حصہ تھا جو بعد ازاں تقسیم ہوکر افریقہ، انٹارکٹیکا، جنوبی امریکا، آسٹریلیا اور ایشیا و مشرق وسطیٰ کے بڑے حصوں میں تقسیم ہوگیا تھا۔24 کروڑ سال پہلے گریٹر ایڈریا گونڈوانا سے الگ ہوا اور خود براعظم کی شکل اختیار کرلی، مگر اس کا بیشتر حصہ سمندر کے اندر ڈوبا ہوا تھا اور سائنسدانوں کے خیال میں اس براعظم میں مختلف جرائز کا گروپ بن گیا جو کہ برطانیہ یا فلپائن جیسے ہوں گے۔24 کروڑ سال پہلے یہ براعظم شمال کی جانب بڑھنے لگا اور 10 سے 12 کروڑ سال قبل اس کا ٹکرائو یورپ سے ہوا اور وہ نیچے کی جانب دھنسنے لگا، مگر چونکہ اس کی کچھ چٹانیں بہت ہلکی تھیں تو زمین کی پرت میں غائب نہیں ہوئیں۔ان دونوں کے ٹکڑائوں سے پہاڑی سلسلے جیسے الپس کی بنیاد بنی اور یہ ٹکڑائو لاکھوں یا کروڑوں برسوں میں مکمل ہوا کیونکہ ہر براعظم ہر سال محض 4 سینٹی میٹر ہی آگے بڑھتا تھا۔اس سست رفتاری کے باوجود اس ٹکڑا ئونے 60 میل موٹے براعظم کو زمین کے قطر کی گہرائی میں پہنچادیا اور اب اس کی باقیات ایک اسرار ہیں۔یہ حقیقت کہ اس کی باقیات مغربی یورپ سے مشرق وسطیٰ تک پھیلی ہوئی ہیں، نے سائنسدانوں کے لیے حالات بہت مشکل بنادیئے تھے۔