بنگلور(مانیٹرنگ ڈیسک)انسان بردار خلائی پرواز کا اعزاز اس وقت 3 ممالک کے پاس ہے مگر بھارت ایسا چوتھا ملک بننے کا خواہشمند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن نے انسان بردار خلائی پرواز کے لیے پہلا مرکز کھول دیا ہے۔ اسے ہیومین اسپیس فلائٹ سینٹر کا نام دیا گیا ہے جو کہ بھارت کے 2022 تک پہلا انسانی بردار خلائی مشن کے لیے عملے کی تربیت میں مدد فراہم کرے گا۔
بھارت 2022 تک پہلا انسان بردار خلائی مشن بھیجنے کا خواہشمند اگست میں انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن کی جانب سے اعلان کیا تھا کہ پہلے انسان بردار خلائی مشن کو اگلے 40 ماہ کے اندر بھیجا جائے گا۔ یہ خلائی مشن 3 رکنی عملے پر مشتمل ہوگا جوکہ زمین کے نچلے مدار پر 5 سے 7 دن تک قیام کرے گا۔ بنگلور میں قائم کیے تربیتی مرکز میں عملے کے سروائیول سسٹمز، ان کی تربیت، پلان مشنز اور مستحکم پروازوں کے لیے سرگرمیوں وغیرہ پر کام کیا جائے گا۔ آئی ایس آر او کے اس مشن پر 90 ارب بھارتی روپے (ڈیڑھ کھرب پاکستانی روپے سے زائد) خرچ ہوگئے جبکہ اس سے قبل آزمائشی طور پر 2 انسانوں کے بغیر بھی خلائی پروازیں روانہ کی جائیں گی۔ بھارت کے خلائی پروگرام کا بجٹ 1.6 ارب ڈالرز کے قریب ہے جو کہ امریکا کے اسی مد میں مختص فنڈ کا 10 فیصد حصہ بھی نہیں جبکہ روس کے 15 فیصد خلائی بجٹ کے برابر ہے۔ بھارت اس سے قبل 2014 میں مریخ پر پہنچنے والا پہلا ملک بنا تھا اور اس مشن پر صرف 74 ملین ڈالرز خرچ ہوئے تھے، جبکہ ناسا کا Maven مشن کا خرچہ 671 ملین ڈالرز تھا۔ خیال رہے کہ اکتوبر 2018 میں پاکستان نے بھی 2022 میں پہلے پاکستانی خلاباز کو خلاء میں بھیجنے کا اعلان کیا تھا اور اگر سب کچھ منصوبے کے مطابق تو پاکستان انسان بردار مشن بھیجنے والا چوتھا یا 5 واں ملک بن جائے گا۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے یہ اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ پہلا
پاکستانی شخص فضائی تحقیقات سے متعلق کام کرنے والے چینی ادارے ‘چائنا مینڈ اسپیس ایجنسی‘ (سی ایم ایس اے) کے تعاون سے خلاء میں جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ‘سی ایم ایس اے‘ اور فضائی تحقیقات سے متعلق کام کرنے والے پاکستانی ادارے ‘سپارکو‘ کے درمیان معاہدہ بھی ہوچکا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے اس کام کو پاکستان کے خلائی پروگرام کے لیے انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے ٹیکنالوجی اور اسپیس پروگرام کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔