برطانیہ(مانیٹرنگ ڈیسک) فیس بک جہاں گزشتہ 2 سال سے ویب سائٹ میں مسلسل تبدیلیاں لانے کے لیے کوشاں ہے وہیں اس عمل میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹ کو دنیا بھر میں تنقید کاسامنا بھی بنایا جا رہا ہے، تاہم پھر بھی فیس بک اپنی پالیسیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ فیس بک نے رواں برس کے آغاز میں ہی ویب سائٹ میں سب سے بڑی تبدیلی کا اعلان کرتے ہوئے نیوز فیڈ کو تبدیل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس نئی تبدیلی کے تحت ویب سائٹ پر خبروں اور اشتہارات کے بجائے عام صارفین کی پوسٹوں کو زیادہ ترجیح دی گئی، تاہم اس تبدیلی پر بھی فیس بک کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس تبدیلی کے بعد خود پر ہونے والی تنقید کے بعد فیس بک نے سلسلہ وار سروے کرنے کا سلسلہ شروع کردیا، تاکہ ویب سائٹ کو زیادہ سے زیادہ لوگوں کی خواہش کے عین مطابق بنایا جاسکے۔ اسی سلسلے میں فیس بک نے حال ہی میں برطانیہ کے محدود صارفین سے سروے کیا، جس میں ان سے متنازع سوالات کیے گئے۔ جعلی خبروں کا پتہ لگانے کا فیس بک سروے سامنے آگیا فیس بک کی جانب سے متنازع اور دنیا کے کئی ممالک میں جرائم کے زمرے میں آنے والے سوالات کو سروے میں شامل کیے جانے پر نہ صرف برطانوی عوام بلکہ وہاں کے اراکین پارلیمنٹ بھی غصے میں آگئے۔ برطانوی اخبار ’دی گارجین‘ کے مطابق لوگوں اور قانون سازوں کے غصے کے بعد فیس بک نے متنازع سروے پر معزرت کرتے ہوئے اسے اپنی غلطی قرار دیا۔ فیس بک کے ترجمان نے جاری بیان میں تسلیم کیا کہ سروے میں شامل سوالات یا مواد جارحانہ تھا، جس سے کئی لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے۔ ساتھ ہی ترجمان نے کہا کہ ایسے مواد کی تشہیر کرنا فیس بک پر ممنوع ہے، ایسے مواد کو ویب سائٹ پر ہرگز ہرگز استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ترجمان نے وضاحت کی کہ ویب سائٹ پر کئی سال سے بچوں کی پورنو گرافی، ان کی نازیبا تصاویر شیئر کرنے اور انہیں دودھ پلانے جیسی تصاویر اور ویڈیوز کی ممانعت ہے۔
فیس بک نے یہ وضاحتی بیان اس سروے کے سوالات سامنے آنے کے بعد کیا جس میں محدود صارفین سے ویب سائٹ پر فحش یا ممنوع مواد کی تشہیر سے متعلق سوالات پوچھے گئے تھے۔ فیس بک کی جانب سے یہ سوالات محدود صارفین سے کیے گئے تھے، ان سوالات کے حوالے سے سب سے پہلے ’دی گارجین‘ کے ڈیجیٹل ایڈیٹر جوناتھن ہائنز نے ٹوئیٹ کیے تھے۔ ان کی جانب سے ٹوئیٹ کیے گیے سروے سے پتہ چلتا ہے کہ سماجی ویب سائٹ نے صارفین سے ممنوع مواد کو ویب سائٹ پر استعمال کرنے سے متعلق سوالات پوچھے ہیں۔
فیس بک میں ایک اور بہت بڑی تبدیلی ایک سوال میں صارفین سے پوچھا گیا تھا کہ اگر کوئی مرد کسی 14 سالہ لڑکی سے پرائیویٹ میسیج میں اس کی برہنہ تصویر کا مطالبہ کرتا ہے تو اس معاملے کو فیس بک پر کس طرح استعمال کیا جائے؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے صارفین کو چار آپشن دیے گئے تھے، جس میں پہلا آپشن اس مواد کو فیس بک پر استعمال کرنے کی اجازت دینے سے متعلق تھا۔ دوسرا آپشن بھی اسے فیس بک پر استعمال کی اجازت سے متعلق تھا۔
تاہم ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا تھا کہ اسے صارف دیکھنا پسند نہیں کرے گا۔ تیسرے آپشن میں ایسے مواد کو فیس بک پر استعمال نہ کرنے کی اجازت نہ دینے سے متعلق تھا، جب کہ چوتھے آپشن میں اس معاملے پر صارف کی کوئی رائے نہ رکھنے کا کہا گیا تھا۔ اسی طرح صارفین سے بچوں کو دودھ پلانے والی تصاویر کو فیس بک پر شیئر کرنے سے متعلق بھی پوچھا گیا تھا۔ علاوہ ازیں اطلاعات ہیں کہ سروے میں بچوں سے ’ریپ‘ کے واقعات کی خبروں اور تصاویر سے متعلق بھی متنازع سوالات کیے گئے تھے، جس پر نہ صرف عوام بلکہ برطانوی قانون سازوں نے بھی سماجی ویب سائٹ کو آڑے ہاتھوں لیا۔