اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)اقوامِ متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ پلاسٹک کی آلودگی سے سمندری زندگی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔اقوامِ متحدہ کے سمندروں سے متعلق ادارے کی سربراہ لیزا سوینسن نے کہا ہے کہ حکومتوں، کمپنیوں اور لوگوں پلاسٹک کی آلودگی سے بچنے کے لیے تیزی سے عمل کی ضرورت ہے۔انھوں نے کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں ہونے والی ماحولیاتی کانفرنس کے موقعے پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’یہ تمام سیارے کا بحران ہے۔
پلاسٹک سے ملنے والی سہولت کے بعد چند مختصر دہائیوں کے اندر اندر ہم سمندروں کا ماحولیاتی نظام تباہ کر رہے ہیں۔اس کانفرنس میں دنیا بھر سے مندوبین پلاسٹک کے کچرے پر قابو پانے کے لیے سخت اقدامات چاہتے ہیں۔سوینس نے کینیا میں کچھووں کے ایک ہسپتال کا دورہ کیا جہاں ان کچھووں کا علاج کیا جاتا ہے جو پلاسٹک نگل کر بیمار پڑ گئے ہوں۔انھوں نے ہسپتال میں ’کائی‘ نامی ایک کچھوا دیکھا جسے ایک مچھیرے نے سمندر کی سطح پر پڑا دیکھا تھا۔اگر کچھوے زیادہ پلاسٹک کھا لیں تو ان کا پیٹ پھول جاتا ہے اور وہ تیر نہیں سکتے۔کائی کے جسم سے پلاسٹک نکالنے کے لیے دو ہفتوں تک اس کا علاج کیا گیا، اور جب وہ مکمل طور پر صحت یاب ہو گیا تو اسے دوبارہ سمندر میں چھوڑ دیا گیا۔سوینسن نے کہا: ‘یہ خوشی کا لمحہ تھا لیکن ہم کوئی پتہ نہیں کہ وہ دوبارہ پلاسٹک نہ کھا لے۔ یہ بات دل شکن ہے مگر یہی حقیقت ہے۔ ہم سطح پر بہت کچھ کرنا ہو گا تاکہ اس بات کو یقینی بنا سکیں کہ سمندر میں پلاسٹک نہ جا سکے۔ کیسپر وان ڈے گیر کچھووں کا ہسپتال چلاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سمندر میں تیرتی پلاسٹک بعض اوقات جیلی فش جیسی معلوم ہوتی ہے جو کچھووں کی خوراک ہے۔ان کے ہسپتال میں لائے جانے والے نصف کچھوے مر جاتے ہیں۔ان کے ہسپتال میں پلاسٹک کے کچرے کے نمونے پڑے ہیں۔ ان میں مچھلیاں پکڑنے کے جال، نائیلون کے رسے، ڈھکن، تھیلے، بوتلیں، سٹرا، اور پلاسٹک کے ٹکڑے شامل ہیں۔ان
کے نمونوں میں تنزانیہ، مڈغاسکر، تھائی لینڈ، انڈونیشیا، حتیٰ کہ جاپان تک سے بہہ کر آنے والا کچرا شامل ہے۔بعض ٹکڑوں پر دانتوں کے نشانات ہیں جس کا مطلب ہے کہ سمندری جانور انھیں خوراک سمجھ کر کھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوینسن کہتی ہیں کہ پلاسٹک کے کچرے سے نمٹنے کا چیلنج انتہائی بڑا ہے۔ وہ ناروے کی جانب سے پیش کردہ ایک قرارداد کی حامی ہیں جس کے تحت سمندروں سے پلاسٹک مکمل طور پر ختم کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
اگر تمام ملک اس پر عمل پیرا ہوں تو یہ اقوامِ متحدہ کی بڑی کامیابی ہو گی۔تاہم بعض مبصرین کے خیال میں اس میں کوئی حتمی مہلت شامل نہیں کی گئی جو اس کی بہت بڑی خامی ہے۔گرین پیس تنظیم کی ٹیشا براؤن نے بی بی سی کو بتایا: ‘ہم اس بات کا خیرمقدم کرتے ہیں کہ وہ ایک سخت بیان وضع کرنے پر غور کر رہے ہیں، لیکن سمندروں میں اربوں ٹن پلاسٹک کچرا شامل ہو رہا ہے اور ہمیں فوری طور پر عمل کرنا ہو گا۔’
ہمیں صنعت کاروں پر زور ڈالنا ہو گا کہ وہ اپنی مصنوعات کی ذمہ داری قبول کریں۔ ہمیں لوگوں کے رویوں پر بھی غور کرنا ہو گا۔’دنیا میں سب سے زیادہ پلاسٹک کا کچرا چین میں پیدا ہوتا ہے جب کہ دوسرے نمبر پر انڈونیشیا آتا ہے۔ انڈونیشیا نے عزم کیا ہے کہ وہ 2025 تک سمندر میں جانے والے پلاسٹک میں 75 کمی لے آئے گا، لیکن ماہرین کے مطابق اسے یقینی بنانے کے لیے مناسب قانون سازی نہیں کی گئی۔کینیا، روانڈا اور تنزانیہ نے پلاسٹک
کے تھیلوں پر پابندی لگا رکھی ہے جب کہ سری لنکا جلد ہی ایسا کرنے والا ہے۔تاہم تھیلے مسئلے کا صرف ایک پہلو ہیں۔سوینسن نے کہا کہ سمندروں کو متعدد خطرات درپیش ہیں، جن میں پلاسٹک کے کچرے کے علاوہ مچھلیوں کا بےدریغ شکار، کیمیائی آلودگی، گٹر کا پانی اور ساحلی علاقوں میں تعمیرات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ماحولیاتی تبدیلی، بڑھتی ہوئی تیزابیت اور کورل ریف کا خاتمہ سمندروں کی صحت کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں۔