اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ پلاسٹک بیگ کھانے والی سنڈی ان بیگز سے پیدا ہونے والی آلودگی کی روک تھام میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کے محققین نے شہد کی مکھی کے چھتے سے موم کھانے والی ایک سنڈی دریافت کی ہے اور دعویٰ کیا ہے یہ سنڈی پلاسٹک بھی کھا سکتی ہے۔تجربات سے یہ پتہ چلا ہے کہ یہ سنڈی پلاسٹک کی کیمیائی ساخت کو اسی طرح توڑ سکتی ہے جیسے وہ مکھی کے چھتے کو ہضم کر لیتی ہے۔
خیال رہے کہ ہر سال دنیا بھر میں آٹھ کروڑ ٹن پلاسٹک پولیتھلین بنائی جاتی ہے۔اس پلاسٹک کا استعمال شاپنگ بیگز کی تیاری اور اشیائے خوردونوش کی پیکیجنگ میں ہوتی ہے لیکن ان کے مکمل طور پر گلنے اور سڑنے میں سینکڑوں سال لگ سکتے ہیں۔سائنسدانوں کے مطابق ‘گیلیریا مولونیلا’ نامی سنڈی ایک گھنٹے میں ہی پلاسٹک میں سوراخ کرنے میں کامیاب ہوئی۔یونیورسٹی آف کیمبرج کے بايوكیمسٹ ڈاکٹر پاؤلو بومبیلی اس تحقیق سے منسلک ہیں۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘یہ نقطۂ آغاز ہے۔
ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ اسے کس طرح انجام دیتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ پلاسٹک کے کوڑے کے مسئلے کو کم سے کم کرنے کے لیے کوئی تکنیکی حل ڈھونڈا جا سکے گا۔’ڈاکٹر بومبیلی اور سپینش نیشنل ریسرچ کونسل کی فیڈریکا برٹوچینی نے اس دریافت کو پیٹنٹ کرایا ہے۔ڈاکٹر برٹوچینی کا کہنا ہے کہ اگر پلاسٹک کو گلانے کے کیمیائي عمل کی شناخت ہو جاتی ہے تو اس سے پلاسٹک کے کوڑے سے نمٹنے کے عمل کی جانب رہنمائی مل سکتی ہے۔