اسلام آباد(ویب ڈیسک) ایرک گیٹن ہوم نے مسکراتے ہوئے تھری ڈی پرنٹر کا بٹن دبایا۔ وہ ایک انسانی ناک پرنٹ کرنا چاہتے ہیں۔ آدھے گھنٹے کی سرگرمی کے دوران پرنٹر کی باریک سوئی ایک چھوٹی سی ڈش کے گرد پہلے سے پروگرام کی ہوئی ہدایات کے مطابق گھومتی اور نیلی روشنائی بکھیرتی رہی۔ یہ عمل کسی جدید ترین سلائی
مشین سے مشابہ لگتا ہے جو کسی کپڑے پر نفیس کڑھائی کر رہی ہو۔ یہ بھی پڑھیے ہڈیوں کو جوڑنے میں بائیو گلاس کا استعمال تھری ڈی پرنٹر کے ذریعے نئی چونچ مل گئی لیکن جلد ہی ایک کچھ مانوس ابھار نمایاں ہونے لگے اور شیشے سے ایک ناک ابھر آئی جو تیز روشنی میں چمک رہی تھی۔ یہ ناک اصل انسانی خلیوں سے تعمیر کی گئی تھی۔ یہ مشین کسی سائنس فکشن فلم کا حصہ نہیں ہے بلکہ یہ عمل تھری ڈی بائیو پرنٹنگ کہلاتا ہے۔ فی الحال اس ٹیکنالوجی کو جلد کے خلیے بنانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ ان پر جلد کے امراض کی ادویات اور کاسمیٹکس کے تجربات کیے جا سکیں۔ ایرک سمجھتے ہیں کہ اگلے 20 برس کے اندر اندر تھری ڈی پرنٹنگ کی مدد سے انسانی اعضا تیار کیے جا سکیں گے جنھیں جسموں کے اندر ٹرانسپلانٹ کیا جا سکے گا۔28 سالہ ایرک سویڈن کی ایک چھوٹی سی کمپنی ’سیل لنک‘ کے بانی اور چیف ایگزیکٹیو ہیں۔ صرف ایک سال کے اندر یہ کمپنی دنیا بھر میں حیاتیاتی مواد کی پرنٹنگ کے سلسلے میں اول نمبر پر آ گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں: ‘مقصد سادہ سا ہے کہ طب کی دنیا کو تبدیل کر دیا جائے۔ ہمارا تصور یہ ہے کہ ہماری ٹیکنالوجی دنیا کی ہر تجربہ گاہ میں استعمال کی جائے۔’ ایرک نے تین سال پہلے اپنے والد سے تھری ڈی پرنٹنگ کی ٹیکنالوجی کے بارے میں سنا تھا، جو سویڈن کے شہر گوتھن برگ میں واقع چالمرز یونیورسٹی میں کیمسٹری کے پروفیسر ہیں۔ ایرک نے بزنس کی تعلیم حاصل
کی تھی۔ انھیں احساس ہوا کہ دنیا میں ‘بایو اِنک’ یا حیاتیاتی روشنائی کی خاصی مارکیٹ موجود ہے۔ سیل لنک میں یہ خصوصی روشنائی سویڈن کے جنگلات سے حاصل ہونے والے سیلولوز اور ناروے کے سمندر سے نکالی جانے والی بحری گھاس سے تیار کی جاتی ہے۔ اس روشنائی کے اندر انسانی خلیوں کا آمیزہ بنا کر انھیں تھری ڈی پرنٹ کیا جا سکتا ہے۔ 2014 تک یہ بایو اِنک ہر ادارے کو خود بنانا پڑتی تھی اور کہیں سے خریدی نہیں جا سکتی تھی۔ایرک کی کمپنی سیل لِنک دنیا کی واحد کمپنی ہے جو یہ بایو اِنک فروخت کرتی ہے اور اسے آن لائن بھی خریدا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ سستے تھری ڈی پرنٹر بھی فروخت کرتی ہے۔ ایرک کو یہ کمپنی بنانے کا خیال 2015 میں آیا جب ان کی عمر صرف 25 سال تھی۔ اسی سال انھوں نے چالمرز یونیورسٹی میں ٹشو انجنیئرنگ کے طالب علم ہیکٹر مارٹینیز کے ساتھ مل کر سیل لنک کی داغ بیل ڈالی۔ جلد ہی اس کمپنی نے کئی سرمایہ کاروں کی توجہ حاصل کر لی اور دس ماہ کے اندر اندر یہ نیسڈیک سٹاک ایکس چینج تک پہنچ گئی جہاں اس کی مالیت 1.68 کروڑ ڈالر لگائی گئی۔ کمپنی نے پہلے ہی سال 15 لاکھ ڈالر کی اشیا فروخت کیں اور اب اس کے 30 ملازمین ہیں اور اس نے امریکہ میں بھی دفتر کھول لیا ہے۔ کمپنی کے صارفین میں تحقیقی ادارے اور یونیورسٹیوں کے علاوہ دوا ساز کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ یہ کمپنیاں انسانی جلد بنا کر اس پر تجربات کرتی ہیں تاکہ انسانوں پر کیے جانے والے
تجربات کی مشکلات سے بچا جا سکے۔ سیل لنک کا طویل مدت ہدف ٹرانسپلانٹ کے لیے دستیاب انسانی اعضا کی موجودہ کمی کو دور کرنا ہے۔ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ بایوپرنٹنگ کی مدد سے دس سے 20 سال کے اندر انسانی اعضا تیار کیے جا سکیں گے جنھیں جسم کے اندر لگایا جا سکے گا۔ اس سلسلے میں کئی اخلاقی سوال بھی
اٹھتے ہیں لیکن ایرک کہتے ہیں کہ سیل لنک کئی اداروں کی مشاورت سے کام کر رہی ہے اور اس سلسلے میں صحت اور تحفظ کے معیارات کا ہر ممکن خیال رکھا جائے گا۔’میں اس پر یقین رکھتا ہوں۔ یہ میری آرزو ہے۔ میں اسی کے لیے زندہ ہوں مجھے اس پر کوئی پچھتاوا نہیں ہو گا۔ ‘