اسلام آباد(ویب ڈیسک) گذشتہ دنوں بڑے پیمانے پر ہونے والے وانا کرائی نامی سائبر حملے کا ذمہ دار کون تھا؟ ایک نظریے کے مطابق اس کے پیچھے شمالی کوریا کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ تاہم ابھی تک اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔کمپیوٹر سکیورٹی کے ماہرین محتاط انداز سے کہہ رہے ہیں کہ ممکنہ طور پر وانا کرائی حملے میں لیزارس گروپ
ملوث ہو سکتا ہے۔ یہ گروپ چین سے کام کرتا ہے تاہم کہا جاتا ہے کہ اسے چلانے والوں کا تعلق شمالی کوریا سے ہے۔ اسی ہیکر گروپ نے 2014 میں سونی پکچرز کو نشانہ بنایا تھا، جب کہ 2016 میں بنگلہ دیش کا ایک بینک اس کی زد میں آیا تھا۔ ٭ کیا آپ کا کمپیوٹر خطرے میں ہے؟٭ ہیکنگ کے ذریعے تاوان کے بڑھتے واقعات، ماہرین کا انتباہ٭ 99 ممالک غیرمعمولی سائبر حملے کی زد میں گوگل کے سکیورٹی ماہر نیل مہتا نے دریافت کیا کہ وانا کرائی میل ویئر کے کوڈ میں اور لیزرس گروپ کے کوڈ میں مشابہتیں پائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ مزید شواہد بھی شمالی کوریا کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ وانا کرائی کا ٹائم کوڈ بین الاقوامی ٹائم یو ٹی سی سے نو گھنٹے آگے ہے۔ اس کے علاوہ اس میں لکھی گئی انگریزی بظاہر مشینی ترجمہ ہے، البتہ اس میں تحریر کردہ چینی کسی اہلِ زبان کا کام لگتا ہے۔ سکیورٹی کے ماہر پروفیسر ایلن وڈورڈ کہتے ہیں کہ یہ شواہد فی الحال ناکافی ہیں لیکن ان پر مزید تحقیق کی جا سکتی ہے۔’ یہ میل ویئر یا مضر سافٹ ویئر کمپیوٹر کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتا ہے جس کی نشاندہی امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی نے کی تھی لیکن اس اس کو ‘ہتھیار بنانے’ اور چھوڑنے والے افراد بالکل مختلف ہیں۔ اس وائرس کا پہلا ورژن دس فروری کو چھوڑا گیا تھا جس نے اپنا کام 25 مارچ سے شروع کیا۔ اس کے تحت سپیم ایی میل اور پھنسانے والی ویب سائٹس کا استعمال کیا گیا اور وانا کرائی 1.0 کو پھیلایا گیا لیکن اس
کے جال میں کوئی نہیں آيا۔ اس کا دوسرا ورژن وانا کرائی 2.0 جس نے گذشتہ دنوں تباہی مچا دی، اس میں پہلے والے ورژن سے صرف ایک فرق تھا کہ یہ خود سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ بعض تحقیق کاروں کا خیال ہے کہ یہ ایک بالکل ہی نئے گروپ کا کام ہے۔ بعض لوگوں نے نشاندہی کی ہے کہ جو مشینیں روسی رسم الخط استعمال
کرتی ہیں یہ میل ویئر ان کو بھی نقصان پہنچانے میں کامیاب رہا۔ روس سے جاری کیے جانے والے زیادہ تر میل ویئر کی خاصیت ہوتی ہے کہ وہ اپنے ملک کے لوگوں پر اثرانداز ہونے سے بچتے ہیں لیکن اس نئے وائرس کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ فی الحال ابھی تک دو لاکھ سے زیادہ اس کا شکار ہو چکے ہیں اور اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی نگرانی کرنا بہت مشکل ہے۔