اسلام آباد(ویب ڈیسک) وہ کمپیوٹر وائرس جس نے 150 سے زائد ممالک میں کمپیوٹر سسٹمز کو ناکارہ بنادیا تھا اس کے پھیلنے کی رفتار میں سستی آئی ہے اور پیر کو ایشیا اور یورپ سے اس وائرس سے متاثر ہونے والے سسٹمز کی کم کیسز سامنے آئے ہیں۔ کمپیوٹر سافٹ ویئر اور
مصنوعات بنانے والی عالمی کمپنی مائیکروسافٹ کا کہنا ہے کہ جمعے سے ہونے والے سائبر حملے کو ‘خواب غفلت سے بیدار ہونے کے کے لیے انتباہ’ کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ رینسم ویئر کے اس حملے کی زد میں ابھی تک تقریباً 150 ممالک آ چکے ہیں۔ ٭ کیا آپ کا کمپیوٹر خطرے میں ہے؟ ٭ 99 ممالک غیرمعمولی سائبر حملے کی زد میں کمپنی کا کہنا ہے حکومت کی جانب سے سافٹ ویئر کی جمع کی گئی کمزوریوں کے سبب اتنے ‘وسیع پیمانے پر نقصانات’ ہوئے ہیں۔ حالیہ وائرس کا حملہ مائیکروسافٹ ونڈوز کے ایک ورژن میں موجود ایک نقص کے سبب ہوا ہے جس کی پہلے پہل نشاندہی امریکی انٹیلیجنس نے کی تھی۔ اب جبکہ لوگ پیر کو ایک بار پھر کام پر واپس آئیں گے ایسے میں مزید ‘رینسم ویئر’ حملے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ بہت سی کمپنیوں میں سنیچر اور اتوار کو ماہرین کام کرتے نظر آئے تاکہ نئے انفیکشن سے بچا جا سکے۔ حملہ آور وائرس نے لوگوں سے ان کے کمپیوٹر کا اختیار لے لیا اور اسے واپس دینے کے لیے ان سے 300 ڈالر تاوان کا مطالبہ کیا۔ ہفتے اور اتوار کے روز وائرس کے پھیلاؤ میں کمی دیکھی گئی ہے لیکن ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ یہ تخفیف عارضی ہو سکتی ہے۔ابھی تک دو لاکھ سے زیادہ کمپیوٹرز اس حملے کی زد میں آ چکے ہیں۔ مائیکروسافٹ کے صدر اور قانونی سربراہ بریڈ سمتھ نے اتوار کو ایک بیان میں حکومت کے طور طریقے کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ کس طرح وہ
سکیورٹی کے نقص کو اپنے کمپیوٹر میں اکٹھا کرتے رہتے ہیں۔ انھوں نے لکھا: ‘ہم نے سی آئی اے کی جمع کمزوریوں کو وکی لیکس میں دیکھا ہے اور اب یہ کمزوری این ایس اے سے چوری کی گئی ہے جس نے دنیا بھر میں صارفین کو متاثر کیا ہے۔ ‘یہ ایسا ہی جیسے روایتی ہتھیار کے معاملے میں امریکی فوج کے زخیرے سے چند ٹوماہاک میزائلیں چوری کر لی جائیں۔’ انھوں نے مزید کہا: ‘دنیا بھر کی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اس حملے کو ایک انتباہ کے طور پر لیں۔’مائیکروسافٹ کے مطابق مارچ میں ایک ونڈوز سکیورٹی اپ ڈیٹ جاری کیا گیا تھا جس سے حالیہ حملے کے مسائل سے نمٹا جا سکتا تھا لیکن بہت سے صارفین نے ابھی تک اسے اپنے کمپیوٹر پر چلایا ہی نہیں۔ مسٹر سمتھ نے کہا: ‘اب جبکہ سائبر حملے زیادہ پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں ایسے میں صارفین کو ان خطروں سے محفوظ رہنے کا اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ اپنے کمپیوٹر سسٹم کو اپ ڈیٹ کرتے رہیں۔’ دریں اثنا یوروپولز کے سربراہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘رینسم ویئر’ کو اس طرح تیار کیا گیا تھا کہ وہ کسی نیٹ ورک کے ایک کمپیوٹر سے دوسرے کمپیوٹر پر تیزی سے پھیل جائے۔ اسی لیے ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔’انھوں نے کہا ہر چند کہ عارضی طور پر درست کیے جانے کے عمل سے اس کے پھیلاؤ
کی رفتار سست ہوئی ہے لیکن حملہ آوروں نے اس کا نیا ورژن جاری کر دیا ہے۔ برطانیہ کے ایک محقق جنھیں ‘مالویئرٹیک’ کے طور پر جانا جاتا ہے اور جنھوں نے اس حملے کے پھیلاؤ کو محدود کرنے میں مدد کی ہے انھوں نے بہت حد تک پیر کو ایک اور حملے کی پیش گوئی کی ہے۔