نیویارک(نیوز ڈیسک) گزشتہ کچھ عرصے میں بڑے بلیک ہولز کی دریافت نے سائنس دانوں کو حیران کردیا تھا لیکن اب ان کے لے ایک پریشان کن تحقیق سامنے آگئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سمان پر چکنے اور جگمگانے والے ستارے بلیک ہولز کے اندر جا کر غائب ہورہے ہیں۔ دنیا بھر سے امریکا میں جمع ہونے والے سائنس دانوں کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کچھ عرصہ قبل دریافت ہونے چمکدار ترین بلیک ہولز سے برآمد ہونے والی سرخ رنگ کی تابکاری شعاعیں دراصل ان ستاروں کی ہیں جو اس میں جا کر غائب ہورہے ہیں۔ جون 2015 میں مشاہدے کے دوران سائنس دانوں کی اس وقت حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے دیکھا کہ بلیک ہولزکے مدار میں چمکنے والے ستارے اس کے اندر جا رہے ہیں جب کہ اس دوران انتہائی زوردار اور چمکدار روشنی اس میں سے نکلی جو چند سکینڈ تک ٹیلی اسکوپ کے ذریعے نظرآئی ۔ ناسا کی انتہائی طاقتور سیٹلائٹ نے گزشتہ دنوں ستاروں کے جھرمٹ سگنس سے تابکاری شعاعوں سے نکلنے والی طاقتورترین توانائی کا مشاہدہ کیا جوکہ زمین سے 8 ہزار نوری سال کے فاصلے پر موجود ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ان کی طاقتور ٹیلی اسکوپ پر لگے جدید ترین کیمرے سے روشنی کے ان فلیشز کو ریکارڈ کیا جب کہ یہ فلیشز ہزاروں سورج سے نکلے رہے تھے جب کہ انتہائی کم عرصے تک نظر آئے اور ہماری آنکھ جھپکنے سے بھی 10 گنا زیادرہ رفتار سے غائب ہوگئے۔ یورپ، عرب امارات، بھارت اور امریکا کے سائنس دانوں پر مشتمل ایک ٹیم کا کہنا ہے کہ بلیک ہول سے نکلنے والی طاقتور شعاعیں ان ستاروں کی ہیں جنہیں اس نے ابھی تک اپنی غذا کا حصہ نہ بنایا ہو کیوںکہ بلیک ہول کی سطح اتنی گہری ہے کہ روشنی بھی اس کی کشش ثقل سے نہیں نکل سکتی۔