گلڈ فورڈ(نیوز ڈیسک) برطانیہ کی یو نیورسٹی آف سرے کے ماہرین 5جی ’ففتھ جنریشن‘ انٹرنیٹ ٹیکنالوجی تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ دوسری جانب دنیا کی بڑی ٹیک کمپنیوں جن میں سام سنگ اور فیوجسٹو کے نام شامل ہیں کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ2018ءمیں 5جی انٹر نیٹ دستیاب ہوگا جس کی سپیڈ موجودہ ’4جی‘انٹرنیٹ کنیکشنز سے100گنا ذیادہ ہے۔انکا مزید کہنا ہے 5جی ٹیکنالوجی کی مدد سے جو فلم 8سے10منٹ میں ڈاو¿ن لوڈ ہونے والی فلم اب صرف 5سیکنڈز میں ڈاو¿ن لوڈ ہو گی۔برطانیہ میں واقع سرے یونیورسٹی کے ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر رحیم تفاذلی نے بتایا کہ انکی لیبارٹری میں پہلے سے بہت سی ٹیکنالوجیز پر کام ہو رہا ہے جن میں اوور سیز 5جی پروجیکٹ بھی ایک ہے۔ انکا کہنا ہے کہ انھیں اس پروجیکٹ کو مکمل کرنے کیلئے کیمپس کے دو مربع میل رقبے پر 70زبردست طاقت کے حامل ریڈیو انٹینے نصب کرنے پڑے ،تاہم اب انکی ٹیم اس قابل ہو چکی ہے کہ دنیا کو دکھا سکے کہ وہ 5جی انٹرنیٹ ٹیکالوجی ایجاد کر نے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ڈاکٹر تفاذلی کے اس دعوے کے بعد دنیا کی بڑی کمپنیوں میں امریکہ کی اے ٹی اینڈ ٹی اور جاپان کی این ٹی ٹی ڈوکومو جو 5جی سب سے پہلے دنیا میں متعارف کرنے کیلئے ریسرچ میں لگی ہوئی تھیں میں کھلبلی مچ گئی ہے۔دنیا بھر میں موجود دیگر وائرلیس انٹرنیٹ پرووائڈر کمپنیز بھی اس خبر کے بعد بڑی حد تک بے چینی کا شکار ہے۔ تاہم کچھ کمپنیز کے ریسرچر کی جانب سے کہا گیا ہے کہ 5جی ٹیکنالوجی کسی صورت اگلے عشرے کی شروعات سے قبل مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہو سکتی۔علا وہ ازیں پیرس کی فوریسٹر ریسرچ کے تجزیہ نگار تھامس ہڈسن کا کہنا ہے کہ عوام کو ایسی خبروں سے ذیادہ امیدیں وابستہ نہیں کرنی چاہیں کیونکہ 2020سے قبل 5جی کا دستیاب ہونا قطعی نا ممکن ہے۔تاہم ڈاکٹر تفاذلی کا کہنا ہے کہ انکی ٹیم نے2011ءمیں ہی5جی انٹرنیٹ ٹیکنالوجی پر کام شروع کر دیا تھا۔ انکا مزید کہنا ہے کہ ان کے سب سے پہلے 5جی انٹرنیٹ کی دستیابی کے اعلان سے بڑی کمپنیوں کے درمیان ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ لیکن ڈاکٹر تفاذلی اور انکی ٹیم جلد از جلد اپنی ٹیکنالوجی دنیاکے سامنے پیش کرنے اور اسے ثابت کر کے دکھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔