ہفتہ‬‮ ، 01 فروری‬‮ 2025 

خلائی تحقیقاتی مراکز خطرے میں

datetime 10  ستمبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی (نیوز ڈیسک)خلائی راکٹ بلاشبہ حیرت انگیز ایجاد ہے۔ یہ زمین کی کشش ثقل کو شکست دے کر ارضی مدار میں پہنچتا ہے۔ اس کی رفتار کئی ہزار میل فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ یہ فولاد کے نقطہ پگھلاﺅ سے دگنا درجہ حرارت برداشت کرسکتا ہے مگر یہ زیرِ آب رہتے ہوئے اڑان نہیں بھرسکتے! اگر ان میں یہ استعداد ہوتی تو خلائی تحقیق کے ادارے ’ناسا‘ کو سطحِ سمندر میں اضافے پر تشویش نہ ہوتی۔ بیش تر امریکی خلائی اڈے ساحلِ سمندر پر واقع ہیں۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سمندری سطح میں اضافے سے یہ زیرِ آب آسکتے ہیں۔
ناسا کے مطابق اس کے نصف سے زائد لانچنگ پیڈز اور دوسرا انفرااسٹرکچر سطح سمندر سے محض سولہ فٹ کی بلندی پر ہے۔ اس میں تجربہ گاہیں، ایئر فیلڈز اور ڈیٹا سینٹرز شامل ہیں۔ ان کی مجموعی مالیت32 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ آئندہ برسوں میں فلوریڈا میں قائم کینیڈی اسپیس سینٹر سمیت دوسرے خلائی اڈوں اور متعلقہ تعمیرات کو ساحل سمندر سے دور، خشکی پر منتقل کرنے کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ ماہرینِ ماحولیات کے مطابق گرین لینڈ اور قطب جنوبی پر گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ سمندر کے درجہ حرارت اور ان کے پھیلاو¿ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور سمندروں کی سطح میں اضافے کے دنیا پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ ناسا کے سمندری ماحول پر ریسرچ کرنے والی ٹیم کے سربراہ اسٹیو نیریم کے مطابق، ”زمین پر حدت میں اضافے کی وجہ سے مستقبل میں سمندر کی سطح میں تین فٹ تک اضافہ ہوسکتا ہے۔“
کینیڈی اسپیس سینٹر، ناسا کا اہم ترین خلائی مرکز ہے۔ اس کا لانچنگ پیڈ اور دوسری متعلقہ عمارتیں بحراوقیانوس سے محض چند سو فٹ کی دوری پر ہیں۔ اسی طرح ورجینیا میں قائم ویلوپس فلائٹ فیسیلٹی بھی سمندر سے بہت زیادہ دور نہیں۔ ناسا کے تحقیقی مشن اسی خلائی اڈے سے روانہ ہوتے رہے ہیں۔ لینگلے ریسرچ سینٹر بھی ورجینیا کی حدود میں خلیج چیساپیک کے کنارے پر واقع ہے۔ ایمز ریسرچ سینٹر خلیج سان فرانسسکو کے جنوبی سرے پر ہے۔ اسی طرح جونسن اسپیس سینٹر خلیج گیلویسٹن پر تعمیرکیا گیا ہے۔ ان کی بنیاد سطح سمندر سے پانچ سے 40 فٹ کی بلندی پر رکھی گئی ہے۔ ان کے مقابلے میں ناسا کی نیواورلینز میں واقع مچاو¿ڈ اسمبلی فیسیلٹی سطح سمندر سے نیچے ہے۔ سمندری طوفان، کترینا کے تھمنے کے بعد ملازمین کو اربوں گیلن پانی اس سینٹر کی حدود سے باہر نکالنا پڑا تھا۔
ناسا کا کینیڈی اسپیس سینٹر ساحل سمندر کی دلدلی زمین پر بنا ہوا ہے۔ خلائی اڈے کی تعمیرات سطح سمندر سے پانچ سے دس فٹ اونچائی پر کی گئی ہیں۔ ماہرین ماحولیات نے سمندر کی سطح میں اضافے سے متعلق جو نمونے ترتیب دیے ہیں، وہ ظاہر کرتے ہیں کہ 2050ءکے عشرے میں کینیڈی اسپیس سینٹر کے اطراف پانی کا لیول پانچ سے آٹھ انچ تک بلند ہوچکا ہوگا۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق اگرچہ پانی کو سینٹر کی حدود میں داخل ہونے کے لیے کئی عشرے درکار ہوں گے، مگر گلوبل وارمنگ کے پیش نظر اس خلائی اڈے کا جلد یا بہ دیر زیرآب آنا یقینی ہے۔
یہاں ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ناسا نے اپنی بیش تر تعمیرات لبِ ساحل کیوں کی ہیں؟ دراصل گذشتہ صدی کے وسط میں امریکی حکومت نے سمندر کے کنارے سے خلائی راکٹ اور خلائی جہاز روانہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس فیصلے کا مقصدکسی ممکنہ حادثے کی صورت میں ہونے والے نقصان سے عام آبادی کو محفوظ رکھنا تھا۔ ناسا نے چند اہم مراکز میں تجربہ گاہوں اور دیگر عمارات کو پانی سے محفوظ رکھنے کے لیے نام وَر ماہرینِ سے رجوع کر لیا ہے، جو اس سلسلے میں اپنے تعمیراتی منصوبے منظوری کے لیے پیش کریں گے۔



کالم



تیسرے درویش کا قصہ


تیسرا درویش سیدھا ہوا‘ کھنگار کر گلا صاف کیا…

دجال آ چکا ہے

نیولی چیمبرلین (Neville Chamberlain) سرونسٹن چرچل سے قبل…

ایک ہی راستہ بچا ہے

جنرل احسان الحق 2003ء میں ڈی جی آئی ایس آئی تھے‘…

دوسرے درویش کا قصہ

دوسرا درویش سیدھا ہوا‘ کمرے میں موجود لوگوں…

اسی طرح

بھارت میں من موہن سنگھ کو حادثاتی وزیراعظم کہا…

ریکوڈک میں ایک دن

بلوچی زبان میں ریک ریتلی مٹی کو کہتے ہیں اور ڈک…

خود کو کبھی سیلف میڈنہ کہیں

’’اس کی وجہ تکبر ہے‘ ہر کام یاب انسان اپنی کام…

20 جنوری کے بعد

کل صاحب کے ساتھ طویل عرصے بعد ملاقات ہوئی‘ صاحب…

افغانستان کے حالات

آپ اگر ہزار سال پیچھے چلے جائیں تو سنٹرل ایشیا…

پہلے درویش کا قصہ

پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں…

آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے

پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…