اسلام آباد (نیوز ڈیسک) کہتے ہیں کہ ہر وقت ہنسی مزاق اچھا معلوم نہیں ہوتا تاہم مزاحیہ مزاج رکھنے والے افراد کیلئے کسی چٹکلے، لطیفے یا دلچسپ قصے کو سامعین تک پہنچائے بغیر چین سے بیٹھنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ یہ لطیفہ وقتی طور پر مزہ دے یا نہ دے لیکن یہ اس وقت، ماحول، کیفیت کو یاد رکھنے میں بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ اسی مفروضے کی بنیاد پر یہ دعویٰ بھی کیا جاسکتا ہے کہ درحقیقت کامیڈی کلاس روم میں طلبا کو قابو میں کرنے سے لے کر انہیں سبق یاد کروانے تک تعلیمی عمل میں ہر لحاظ سے مدد دیتی ہے۔ ڈیو سمتھ جنہیں دور جدید میں انگریزی زبان کے معروف فکاہیہ مصنفین میں شامل کیا جاتا ہے، اس بارے میں اپنے تجربہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مزاحیہ کالم نگاری کے حوالے سے تربیت دیتے ہوئے ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ ان کی کلاس میں طلباءقہقہے بکھیرتے رہیں۔ ڈیو کہتے ہیں کہ آج کے دور میں کوئی بھی ایسی بات نہیں رہ گئی جسے طلبا کو کتابوں میں پڑھنے پر علم نہ ہوسکے۔ سب کچھ کتابوں میں درج ہے تاہم استاد اسے بیان کرنے کے طریقے سے طلبا کیلئے آسانی سے یاد کئے جانے کے قابل بنا سکتا ہے۔ انگریزی زبان کا استاد طلبا کو لکھنے سے متعلقہ ہر قسم کے اصول و ضوابط سکھا دیتا ہے، ایسے میں میرا کام صرف یہی رہ جاتا ہے کہ میں نہیں اس قابل بنا سکوں کہ وہ ان قوانین کو آسانی سے یاد رکھیں اور عملی طور پر استعمال میں لائیں۔ اس کیلئے ان سے لطیفوں کو نتھی کر دینا آسان ترین طریقہ ہے۔ طلباءمیرے لطیفوں پر ہنستے ہیں اور انہیں اس لطیفے سے منسلک واقعہ بھی یاد رہ جاتا ہے۔
کامیڈی کو کلاس روم میں استعمال میں لانا آسان کام ہرگز نہیں ہے۔ کیونکہ استاد کی معمولی غلطی کلاس میں نہ صرف طلبا کے ہاتھوں استاد کا مزاق بنوا سکتی ہے بلکہ کلاس کو بے قابو بھی کرسکتی ہے۔ اس کیلئے حس مزاح کو بہتر بنانا ضروری ہے اور تھوڑی سی محنت سے کوئی بھی فرد اس خوبی کو نکھار سکتا ہے۔ اس حس کو نکھارنے کیلئے ضروری ہے کہ مزاح کو اپنی زندگی میں شامل کیا جائے۔ اچھی اچھی مزاحیہ کتابیں پڑھیں، مزاحیہ ٹی وی پروگرام دیکھیں اور ایسے افراد کی محفل میں بیٹھیں جو کہ زبان دانی میں مہارت پیدا کرنے میں مدد دیں۔ اس سب کے ساتھ ساتھ ہنسی مزاق کی ایک حد طے کریں۔ ایسا نہ ہو کہ محض آپ کی حیثیت کلاس میں ایک مسخرے کی سی رہ جائے۔مزاق کریں مگر بطور استاد اپنے رتبے کو قائم رکھیں۔ اس کیلئے ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب طالب علم کوئی مزاق کرے تو اسے سراہا جائے اور جوابی مذاق کیا جائے تاہم اس امر پر خاص نگاہ رکھی جائے کہ مذاق ایک حد تک ہی کیا جائے۔ بچوں میں ترغیب دیں کہ ان کے اندر مشاہدے کی صلاحیت پیدا ہو۔ مشاہدہ تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارتا ہے۔ طلبا میں مشاہدے کے ساتھ ساتھ خود بھی ان کا مشاہدہ کریں اور یہ جانچنے کی کوشش کریں کہ آپ کے طلبائ میں موجود صلاحیتوں کو جان سکیں اور انہیں اسے ابھارنے کی ترغیب دے سکیں۔ کلاس میں اچھی کامیڈی کی ایک صورت آواز کے اتار چڑھاو¿ کے ذریعے پیدا کی جاسکتی ہے۔ اسکے علاوہ کوئی مزاحیہ فن پارہ اپنے ہمراہ لے جائیں اور طلبا کو پڑھ کے سنائیں۔
کلاس روم میں کامیڈی بھی آ پ کو کامیاب بنا سکتی ہے
13
اپریل 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں