انڈیا(نیوز ڈیسک) 1984میں ریان وائٹ کے ایڈز میں مبتلا ہونے کا انکشاف ہوا اور اس وقت تک ڈاکٹر بھی اس بیماری کے بارے میں کماحقہ آگاہ نہیں تھے۔جب اس کا نام قومی خبروں میں آنا شروع ہوا تو زیادہ تر لوگ یہی سمجھتے تھے کہ ایڈز ایک انتہائی مہلک اور متعدی د مرض ہے۔ ”ٹائم“ کیلئے للی روتھ مین اپنے مضمون میں لکھتی ہیں کہ25برس قبل جب 8اپریل 1990کو ریان وائٹ کا انتقال ہوا تو اس کی عمر صرف 18 برس تھی۔وہ ہیموفیلیا کے مرض میں مبتلا تھا اور1985میں یا اس کے آس پاس انتقال خون کے دوران اس مرض میں مبتلا ہوا تھا۔اس کا نام اس وقت شہ سرخیوں میں آیا جب اس نے انڈیانا کے کوکومو نامی اپنے آبائی شہر کے سکول میں تعلیم جاری رکھنے کی کوشش کی۔ اگرچہ ریاستی محکمہ صحت نے یہ واضح کر دیا تھا کہ وہ جب تک برداشت کر سکتا ہے، سکول جا سکتا ہے اور اس سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں، ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ نے فیصلہ کیا کہ وہ فون کے ذریعے پڑھائی کا سلسلہ جاری رکھ سکے گا جس پر اس کے والدین نے عدالت سے رجوع کر لیا۔ ”ٹائم“ کی اس وقت کی کوریج سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت امریکا میں ایسے 200کے لگ بھگ ایسے لوگ ایڈز میں مبتلا تھے جو سکول جانے کی عمر میں تھے۔والدین میں خوف بہت زیادہ تھا کیونکہ اس بات سے بہت کم لوگوں کو آگاہی تھی کہ ایڈز عام میل جول کے ذریعے منتقل نہیں ہوتا۔ ایک برس بعد 1986کی خزاں میں ریان وائٹ نے عدالتی حکم نامے کی بدولت آٹھویں درجے سے اپنی پڑھائی دوبارہ شروع کر دی جس کا سلسلہ آنے والے برسوں میں جاری رہا تاہم اس کی بدولت اس مرض کے بارے میں لوگوں کو آگاہی ہوئی جو اس کے مریضوں سے گریز کرتے تھے۔ اصل میں یہ ایک نوجوان لڑکے کی دکھ بھری داستان ہے جو سکول جا کر تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا لیکن اس کی ہمت کی بدولت ایڈز کے دیگر مریضوں کیلئے بہتری کی صورت نکل آئی۔ مثال کے طور پر 1990میں اس کی وفات کے بعد کانگریس نے اس کے نام پر ایک بل پاس کیا جس کی بدولت اس مرض میں مبتلا امریکیوں کو علاج کی سہولت میسر آئی۔ وائٹس فیملی کے ایک دوست رے پروباسکو نے ریان وائٹ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس سے قبل اس بیماری کے بارے میں اتنا زیادہ علم نہیں تھا،
مزید پڑھئے:چین : ایک بار چارج کرنے پر 24 گھنٹے چلنے والے لیپ ٹاپ
اس لئے ریان کے ارد گرد کے لوگوں میں انتہائی تشویش پھیل گئی۔ پہلے پہل ریان اور بیماری کو ایک ہی چیز سمجھا گیا تاہم جب ہم نے لڑکے کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ دونوں ایک ہی چیز نہیں ہیں۔ یہ ریان ہی تھا جس کی بدولت معلوم ہوا کہ اس بیماری میں مبتلا لوگ انسان ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہم اس لڑکے کو دیکھنے کے لائق ہوئے جو صرف یہ چاہتا تھا کہ اسے بھی دیگر عام بچوں کی طرح سکول جانے کا حق ملے۔ جب بچے ریان سے پوچھتے کہ کیا وہ موت سے خوفزدہ ہے تو اس کا جواب ہوتا کہ ہر شخص کو موت آنی ہے، میں جانتا ہوں کہ میں بہتر جگہ جا رہا ہوں۔