لارج ہیڈرون کولائیڈر‘ نے دوبارہ کام شروع کر دیا ہے

6  اپریل‬‮  2015

اسلام آباد( نیو ز ڈیسک)لارج ہیڈرون کولائیڈر‘ (ایل ایچ سی) نے دوبارہ کام شروع کر دیا ہے جس میں 2013 کے بعد پہلی مرتبہ مشین کی 27 کلومیٹر سرنگ میں پروٹونز چکر لگا رہے ہیں۔اس سائنسی لیبارٹری میں بنے ہوئے متوازی پائپوں میں ذرات کی شعاعوں نے دونوں طرف تقریباً روشنی کی رفتار سے سفر کرنا شروع کر دیا ہے۔کم از کم ایک ماہ تک ان ذرات میں ٹکراو¿ نہیں ہوگا لیکن اس مرتبہ ایل ایچ سی کے اندر یہ ٹکراو اس سے دو گنی توانائی سے ہوگا جس سے پہلے ہوا تھا۔سائنسدانوں کو امید ہے کہ انھیں سٹینڈرز ماڈل سے ہٹ کر ’نئی طبیعیات‘ کی جھلک دکھائی دے گی۔ایل ایچ سی کے نگران ادارے سرن کے ڈائریکٹر جنرل رالف دائتر ہیوئر نے انجینیئروں اور سائنسدانوں کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ’بہت بہت شکریہ، اب مشکل کام شروع ہو رہا ہے۔‘سرن کے ایکسیلیریٹرز اور ٹیکنالوجی کے ڈائریکٹر فریڈرک بورڈری نے کہا کہ ’دو سال کی کوشش کے بعد، ایل ایچ سی ایک عمدہ حالت میں ہے۔لیکن سب سے اہم مرحلہ اس وقت آئے گا جب ہم ان شعاعوں کی توانائی ریکارڈ سطح تک بڑھا دیں گے۔یہ کرنیں شیڈیول سے ایک ہفتہ تاخیر سے آئی ہیں جس کی وجہ ایک الیکٹریکل نقص تھا جو اب ٹھیک کر لیا گیا ہے۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مشاہدے میں آنے والے نئےذرے کی دریافت سے یہ پتا چلانے میں مدد مل سکتی ہے کہ مادہ کا وجود کیسے عمل میں آتا ہےسرن کے ڈی جی نے کہا کہ ’میں بہت خوش ہوں اور میری طرح کنٹرول سینٹر میں سبھی لوگ۔‘شروع میں پروٹونز کو کم توانائی میں پھینکا جائےگا۔ لیکن آنے والے مہینوں میں سائنسدان امید کرتے ہیں کہ وہ شعاعوں کی توانائی 13 کھرب الیکٹرو ولٹس تک بڑھا دیں گے جو کہ ایل ایچ سی کے پہلے آپریشن سے دو گنا ہو گی۔8:30 جیایم ٹی پر انجینیئروں نے پروٹون بیم کو اس بڑے چکر میں ایک کے بعد ایک کر کے چھوڑنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد متوازی طور پر دوسری بیم چھوڑی گئی۔تجرباتی ٹیموں نے پہلے ہی ذرات کے ’چھینٹے‘ دیکھے تھے جب پروٹون اس شٹر سے ٹکرائے تھے جو بیم کو ٹریک پر رکھتے ہیں۔
ماہرِ طبیعیات پارٹیکل فزکس کے موجودہ سٹینڈرڈ ماڈل سے بہت مایوس ہو گئے ہیں۔ یہ 17 سب اٹامک ذرات کو بیان کرتا ہے جس میں 12 سے مادہ مل کر بنا ہے اور پانچ ’طاقت کو لے کر چلنے والے ہیں۔‘ ان میں سے ہگز بوسون بھی ایک ہے جسے ایل ایچ سی میں 2012 میں دریافت کیا گیا تھا۔سوئٹزرلینڈ اور فرانس کی سرحد پر بنائی گئی ستائیس کلومیٹر طویل سرنگ میں قائم لارج ہیڈرون کولائیڈر میں سائنسدان ابتدائے کائنات کے رازوں کو جاننے کی کوشش کر رہے اور وہ ذرات کو آپس میں ٹکرا کر اس عنصر کی تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے تخلیق کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھایا جا سکے گے۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مشاہدے میں آنے والے نئےذرے کی دریافت سے یہ پتا چلانے میں مدد مل سکتی ہے کہ مادہ کا وجود کیسے عمل میں آتا ہے۔اس سے قبل جولائی 2012 میں سوئٹزرلینڈ کے شہر جینیوا میں ’لارج ہیڈرون کولائیڈر‘ منصوبے سے وابستہ سائنسدانوں نے ہگس بوسون یا ’گاڈ پارٹی?ل‘ جیسے ذرے کی دریافت کا دعویٰ کیا تھا۔ہگس بوسون وہ تخیلاتی لطیف عنصر یا ’سب اٹامک‘ ذرہ ہے جسے اس کائنات کی تخلیق کی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔سائنسدان گزشتہ پینتالیس برس سے ایسے ذرے کی تلاش میں تھے جس سے یہ واضح ہو سکے کہ مادہ اپنی کمیت کیسے حاصل کرتا ہے اور اس دریافت کا اعلان جنیوا میں ایل ایچ سی سے وابستہ سائنسدانوں کی ٹیم نے کیا۔ہگس بوسون کی تھیوری کے خالق پروفیسر پیٹر ہگس ہیں جنہوں نے ساٹھ کے عشرے میں سب سے پہلے یہ نظریہ پیش کیا تھا۔



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…