سویڈن(نیوز ڈیسک ) نویں صدی میں سویڈش قبر میں سے دریافت ہونے والی ایک قدیم انگوٹھی کےحالیہ تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ وائکنگ زمانے اور اسلامی تہذیبوں کے رابطوں کی قدیم کہانیوں میں سچائی کے کچھ عناصر پوشیدہ رہے ہوں گے۔اگرچہ موجودہ دور میں اسکینڈے نیویا ممالک (ناروے ،سویڈن) عرب اور مسلمان تارکین وطن کی اکثریت رکھنے والے ملک بن چکے ہیں لیکن حالیہ مطالعے سے وابستہ سائنسدانوں نے قیاس آرائی کی ہے کہ ان تعلقات کی تاریخ بہت پرانی ہے بلکہ اتنی قدیم ہو سکتی ہے جس کا اندازا بھی نہیں لگایا جا سکتا ہے۔سویڈن کے تاریخی تجارتی مرکز ‘برکا ‘ میں وائی کنگ زمانے کی ایک قبر سے دریافت ہونے والی چاندی کی انگوٹھی میں گلابی بنفشی پتھر جڑا ہوا ہے۔ اس پتھر پر نمایاں طور پر عربی رسم الخط کوفی میں ‘اللہ’ لکھا ہوا دیکھا جاسکتا ہے۔مورخین کے مطابق عربی میں کوفی رسم الخط وائی کنگ زمانے یعنی آٹھویںصدی اور دسویں صدی میں وسیع پیمانے پر استعمال ہوتا رہا ہے۔محققین نے کہا کہ اگرچہ قدیم تحریروں میں 1000 عیسوی سال سے پہلے اسکینڈے نیوین اور اسلامی تہذیب کے ارکان کے درمیان رابطوں کا ذکر ہے تاہم انگوٹھی کا وجود اس بات کا غیر معمولی ثبوت ہے۔وائی کنگ کون تھے ؟وائی کنگ اسکینڈے نیویا کے مہم جو قزاق اور تاجر تھے، انھوں نے آٹھویں صدی کے اوائل اور گیارھویں صدی کے اواخر میں یورپ کے ساحلوں پر یورش کی اور انھیں نوآبادی بنایا جس کے بعد وہ برطانیہ کے جزیروں، شمالی فرانس اور اٹلی کے ساتھ ساتھ روس کے دریائی راستوں پر آباد ہوگئے۔ انھوں نے نئے علاقے دریافت کیے جن میں آئس لینڈ، گرین لینڈ اور نیو فاو¿نڈ لینڈ شامل ہیں۔ ان کے طویل سفر اور وائی کنگز کے پھیلاو¿ کے اس دور کو ‘وائی کنگ کا زمانہ’ کہا جاتا ہے جو قرون وسطیٰ میں اسکینڈے نیویا، برطانیہ اور یورپ کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔تاہم بیسویں صدی کے بعد آثار قدیمہ کے ریکارڈ نے وائی کنگ کی دیسی اور شہری زندگی، ان کی تجارت کے نیٹ ورک، بحری جہازوں، فوجی ساز و سامان، مذہبی نوادرات اور طرز عمل کے بارے میں معلومات فراہم کی ہے جس سے ان کی زندگی کی متوازن اور مکمل تصویر کی تعمیر ہوئی ہے۔وائی کنگ کی تہذیب و ثقافت اور عقیدہوائی کنگ کو تاریخ مین غیر مذہب لٹیروں کے طور پر دیکھا گیا ہے لیکن انھوں نے جلد ہی اپنے معبودوں تھور، نورس اور اودن کے ساتھ ساتھ عیسائیت کو عقیدے کے طور پر اپنا لیا تھا۔ البتہ یہ ایک ناخواندہ ثقافت تھی جس سے کوئی ادبی میراث پیدا نہیں ہوئی۔ وائی کنگز جہاں گئے انھوں نے وہیں کی ثقافت کو اپنا لیا اور جلد ہی روسی، فرانسسی، آئرش اور انگریز بن گئے۔1066ئمیں عیسائیت کے پھیل جانے کے بعد انھوں نے لوٹ مار اور مطالبات بند کردیے اور آرام سے زندگی گزارنے لگے۔ اگرچہ ان کے پاس حروف تہجی تھے لیکن انھوں نے پتھروں پر ‘رونی’ حروف میں اپنی دنیا کو بیان کیا ہے علاوہ ازیں ان کے بارے میں زیادہ تر تحریری مواد دوسرے ذرائع سے حاصل ہوا ہے جو ان کے ساتھ رابطے میں رہے تھے۔ماہر تاریخ دان فرحت حسین نے نیشنل نیوز پیپر آف ابو ظہبی کے 2008 کے ایک انٹرویو میں بتایا تھا وائی کنگ کو سونے سے زیادہ چاندی میں دلچسپی تھی اور وائی کنگ کے مرد اور عورتوں میں یہ حیثیت کی علامت تصور کیا جاتا تھا حتیٰ کہ وہ چاندی کے ساتھ اپنی تدفین چاہتے تھے۔سویڈن میں وائی کنگ کی پراسرار انگوٹھی کی دریافت آثار قدیمہ کے ماہرین نے انگوٹھی کو 1872-1895 کے برکا کے قبرستان کی کھدائی میں دریافت کیا جو ایک لکڑی کے تابوت میں سے زیورات بروجز کے ساتھ برآمد ہوئی اس کے ساتھ اسکینڈے نیوین عورت کے عام لباس کی باقیات بھی ملی ہیں جبکہ قبر میں موجود عورت کی لاش مکمل طور پر سڑی ہوئی تھی۔ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق نویں صدی میں فوت ہونے والی ایک عورت اس قبر میں دفن تھی جس کی قبر کو مشہور سویڈش آثار قدیمہ کے ماہر ہیالمراسٹولپ نے لگ بھگ ایک ہزار سال کے بعد کھدائی میں دریافت کیا تھا۔یہ انگوٹھی سویڈن میں اسٹاک ہوم کے تاریخی عجائب گھر کی زینت تھی۔ انگوٹھی کے تعارف میں اسے قیمتی پتھر یاقوت سے مزین نقش و نگار والی انگوٹھی کے طور پر پیش کیا گیا جو چاندی اور سونے کے طلہ پر مشتمل تھی اور جس پر عربی میں ‘اللہ’ لکھا ہوا ہے۔اللہ کے نام سے مزین انگوٹھی پرتحقیق یہ منفرد انگوٹھی اسٹاک ہوم یونیورسٹی کے ماہر حیات و طبیعات سیبیسٹین وارم لینڈر اور ان کے ساتھیوں کے حالیہ مطالعے کا مرکز بن گئی جنھوں نے اپنے تجزیہ سے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ انگوٹھی کس طرح سے تاریخ میں منفرد اہمیت کی حامل ہے۔بقول محقق سبیسٹین ”یہ اسکینڈے نیویا میں کھدائی سے ملنے والی واحد انگوٹھی ہے جس پر عربی تحریر ہے اگرچہ ہمیں عربی طرز کی اور بھی انگوٹھیاں کھدائی سے ملی ہیں لیکن ان میں تحریر موجود نہیں ہے۔”محققین نے پراسرار انگوٹھی کی تحریر کا مطلب فاراللہ ( اللہ کے لیے) یا ٹو اللہ (اللہ کے لیے) نکالا ہے انھوں نے کہا کہ کنندہ تحریر کی ممکنہ متبادل تشریح کےطور پر حروف تہجی کو ‘انشاءاللہ’ بھی پڑھا جا سکتا ہے۔وائی کنگ انگوٹھی کا معائنہمحققین سیبیسٹین نے انگوٹھی کے ماخذ کی تحقیقات کرنے میں اسکیننگ الیکٹران خوردبین کا استعمال کیا ہے اور دریافت کیا کہ میوزیم کی طرف سے پیش کردہ وضاحت مکمل طور پر درست نہیں تھی۔تحقیقی مطالعے کے مطابق ”انگوٹھی کا انتہائی باریکی سے معائنہ کرنے سے پتا چلا کہ انگوٹھی کے نگینے پر کوفی عربی حروف تہجی ہے جس کا تعلق 850 عیسوی کے اسی زمانے سے ہے جتنی پرانی برکا کی یہ قبر ہے۔ ”انھوں نے سائنسی جریدے ‘اسکیننگ’ میں لکھا ”ہمارے تجزیہ سے ظاہر ہوا کہ انگوٹھی جس پر تحقیق ہوئی وہ سونے کے ملمع کےبغیر ہے اور94.5 فیصد اعلیٰ چاندی کی دھات پر مشتمل ہے اس پر یاقوت نہیں بلکہ سوڈا لائم شیشے کا رنگین پتھر جڑا ہے عربی تحریر کے ساتھ جو عربی میں اللہ کے نام کا کوئی ورڑن ہے۔”محقق سیبسٹین نے کہا کہ وائکنگ کے اس زمانے میں رنگین شیشہ ایک نایاب میٹیریل تھا حتیٰ کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں ہزاروں سال پہلے شیشہ تیار کیا گیا تھا۔محققین کے مطابق دلچسپ بات یہ تھی کہ انگوٹھی اچھی حالت میں تھی ‘انگوٹھی پر دائرہ کرنے کے نشانات دھات کی سطح پر اب بھی موجود تھے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ زیور زیادہ استعمال نہیں ہوا اور یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ اس کے کبھی بھی زیادہ یا کئی مالکان نہیں رہے ہوں گے۔’وائی کنگ انگوٹھی اسلامی خلافت سے رابطہ کا سائنسی ثبوت ماہر حیات و طبیعات ڈاکٹر سیبسٹین نے کہا کہ ”بہت ممکن ہے کہ ہم اس تحریر کے پیچھے مفہوم کو اور یہ کہاں اور کیوں ہوا جیسے سوالوں کو کبھی نہیں جان سکیں گے۔”تاہم موجودہ تحقیقات کے مطابق انگوٹھی اور اس کے پتھر کا اسلامی طرز کا ہونا خلافت کے ساتھ اس کا تعلق ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے’۔دوسرے لفظوں میں انگوٹھی برکا میں اتفاقیہ طور پر نہیں ملی یہ تجارت یا پھر مختلف لوگوں کے درمیان تبادلے کے بعد یہاں پہنچی ہوگی۔”یا پھر اس کے بجائے اسلامی سنار سے دفنائی گئی عورت کو ملی تھی جس کے لیے بنائی گئی تھی اور یہ ناممکن نہیں ہے کہ عورت خود یا اس کے کسی قریبی نےخلافت یا اس کے آس پاس کے علاقوں کا دورہ کیا ہوگا۔’شاید عورت کا تعلق خود اسلامی دنیا سے تھا یا پھر کسی وائی کنگ نے اسے اسلامی خلافت کا دورہ کرتے ہوئے تجارت یا چوری سے حاصل کیا۔”محقق سیبسٹین نے مطالعے سے اخذ کیا کہ ”دونوں صورتوں میں انگوٹھی ظاہر کرتی ہے کہ وائی کنگ کا اسلامی عباسی خلافت کے ساتھ براہ راست رابطہ رہا ہو گا جن کا مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں غلبہ تھا۔”یہ گیارہویں صدی میں یہ طویل سمندری سفر کے لیے مشہور تھے انھوں نے مغرب میں امریکی کے طور پر سفر کیا اور امکان ہے کہ وہ قسطنطنیہ حتیٰ کہ بغداد بھی پہنچے تھے۔دوسری جانب یورپ میں وائی کنگ کو جنگجو اور بحری قزاق سمجھا جاتا ہے۔ان کے مطابق ”وائی کنگ ساگا اور قدیم قصے ہمیں بتاتے ہیں کہ وائکنگ کے مہم جو بلیک اور کیسپین سمندر میں بحری سفر پر جاتے تھے اور شاید اس سے بھی آگے لیکن ہم یہ نہیں جانتے ہیں کہ ان کہانیوں میں سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے تاہم انگوٹھی کی اچھی حالت اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ اسکینڈے نیویا میں وائکنگ زمانے اور اسلامی دنیا کے درمیان رابطے موجود رہے ہوں گے’۔وائی کنگ اور اسلامی خلافت کے رابطے کا تاریخی ثبوت قدیم تاریخی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ عباسی خلافت کے سفیر اور دسویں صدی کے عرب مصنف احمد بن فضلان نے اپنے سفر نامے میں وائی کنگ کو رس یا روسیاءکہہ کر مخاطب کیا ہے۔عباسی خلیفہ کو 920صقالیہ کے بادشاہ کی جانب سے خط ملا جو قازان کے شمالی علاقے میں حکومت کرتا تھا جہاں موجودہ روس ہے۔ بادشاہ نے خلیفہ سے گذارش کی تھی کہ وہ اسلام کی بنیادی تعلیم سکھانے کے لیے کسی وفد کو وہاں بھیجے جس پر خلیفہ نے کافی پس و پیش کے بعد سفارتی وفد روانہ کیا تھا جن میں ابن فضلان شامل تھے جو گیارہ ماہ بعد صقالیہ کے خیموں تک پہنچے اور اسطرح ہمیں اس اجنبی دنیا کے بارے میں ابن فضلان کے قلم کے ذریعے تاریخی دستاویز ملتی ہے۔ابن فضلان کے تاریخی سفر نامے کے بیان کے مطابق انھوں نے حملہ آور قوم کو لٹیرے کے بجائے تاجر دکھایا ہے۔ وہ ان کے قد کاٹھ اور طاقت کا ذکر کرتے ہیں اور ساتھ ہی ان کے ناقص حفظان صحت کا بھی ذکر موجود ہے۔انھوں نے گیارہ سو سال پہلے کی وحشی وائی کنگ کی دنیا کو ایک عرب سفیر کی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ 1999 میں ہدایت کار جان میک ترنان نے’ دی 13 وارئیر ‘ فلم بنائی تھی جس میں ابن فضلان کا مرکزی کردار ہے اور سفر نامے کے حقائق کا ذکر ہے۔