کراچی(این این آئی) شہر قائد کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں نیپا چورنگی کے قریب کھلے گٹر میں گرنے والے 3 سالہ ابراہیم کی لاش 14 گھنٹے بعد جائے حادثہ سے ایک کلو میٹر دور نالے سے مل گئی جبکہ عوام نے شدید احتجاج کرتے ہوئے یونیورسٹی روڈ بلاک کردی، مشتعل افراد نے میڈیا اور پولیس پر حملہ کرتے ہوئے گاڑیوں کے شیشے بھی توڑ دیے۔ریسکیو 1122 کے ترجمان احسانْ الحسیب خان نے بتایا کہ اتوار کی رات 10 بجے سروس کے مرکزی کمانڈ سینٹر کو واقعے کی اطلاع ملی۔انہوں نے بتایا کہ بچہ اپنے والدین کے ساتھ نیپا کے قریب ایک نجی ڈپارٹمنٹل اسٹور میں خریداری کیلئے آیا تھا، اسٹور سے باہر نکلنے کے بعد بچہ مین ہول میں جا گرا۔
ترجمان کے مطابق ریسکیو 1122 عموماً رات کے وقت تلاش کا کام شروع نہیں کرتا کیونکہ اندھیرے میں مناسب حد تک دیکھنا ممکن نہیں ہوتاتاہم چونکہ جائے وقوعہ پر مشتعل ہجوم جمع ہو گیا تھا اور والدین صدمے میں تھے، اس لیے اہلکاروں نے فوری طور پر تلاش کا کام شروع کر دیا تاہم ریسکیو اہلکار بچے کو تلاش کرنے میں اب تک ناکام رہے ہیں، ترجمان نے بتایا کہ تلاش اور ریسکیو آپریشن رات گئے تک جاری رہا، انہوں نے کہا کہ ریسکیو ٹیم نے بھاری مشینری کی مدد سے 5 مقامات کی کھدائی کی ہے تاکہ گمشدہ بچے کو تلاش کیا جاسکے۔انہوں نے بتایا کہ ریسکیو 1122 ٹیم نے متعلقہ حکام سے نکاسی آب کے زیرِ زمین نظام کا نقشہ فراہم کرنے کی درخواست ۔بعدازاں، پولیس نے بتایا کہ بچے کی لاش جائے حادثہ سے ایک کلومیٹر دور نالے سے مل گئی، نیپا چورنگی کے قریب مین ہول میں گرنیوالے بچے کی لاش مل گئی۔رپورٹ کے مطابق کراچی کے علاقے شاہ فیصل کالونی کی رہائشی فیملی اتوار کی رات خریداری کے لیے گلشن اقبال میں نیپا چورنگی کے قریب واقعہ شاپنگ سینٹر آئی تھی جہاں پر 3 سال کا بچہ کھلے مین ہول میں گر گیا۔بچے کے والد کے مطابق شاپنگ کرکے نکلے تو بیٹا ہاتھ چھڑا کر بھاگا اور آنکھوں کے سامنے گٹر میں جاگرا، مین ہول پر ڈھکن نہیں تھا۔
واقعے کے بعد نیپا چورنگی پر شہریوں نے احتجاج شروع کردیا اور ٹائر جلا کر سڑک بلاک کردی، مشتعل افراد نے میڈیا اور پولیس پر بھی حملہ کیا، مظاہرین کے پتھراؤ سے گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔شرپسند عناصر کی جانب سے آپریشن میں خلل کے باعث ریسکیو اہلکاروں نے آپریشن روک دیا، مشتعل افراد نے نیپا چورنگی سے حسن اسکوائر جانے والی سڑک بند کردی، نیپا سے جامعہ کراچی اور گلشن چورنگی جانے والی سڑک بھی بند کردی گئی ہے۔دریں اثنا سندھ اور شہری حکومت نے نیپا واقعے کی تحقیقات شروع کردی، ترجمان سندھ حکومت سعدیہ جاوید نے کہا کہ مین ہول کا ڈھکن غائب ہونے کی انکوائری جاری ہے، غفلت کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ قبل ازیں ڈپٹی میئر سلمان مراد نے نیپا واقعے کے بعد تمام ریسکیو اداروں کو الرٹ کرتے ہوئے ر بچے کو جلد از جلد تلاش کرنے کی ہدایت کی تھی۔
واضح رہے کہ پاکستان میں کھلے گٹروں اور مین ہولز میں گرنے سے ہلاکتوں کے واقعات عام ہیں،ستمبر میں کراچی کے عثمان آباد علاقے میں صفائی کے دوران تین سینی ٹیشن ورکرز مین ہول میں گرنے سے ہلاک ہو گئے تھے۔مئی میں کراچی میں ایک چھ سالہ بچہ کھلے مین ہول میں گر کر ڈوب گیا تھا، جس پر شہریوں اور سیاستدانوں نے احتجاج کیا اور پولیس نے مقدمہ درج کیا۔اپریل میں لیاقت آباد کے ایک نالے سے ایک کمسن بچی کی لاش برآمد ہوئی تھی، جسے سچل تھانے کی حدود سے لاپتا ہونے کی اطلاع دی گئی تھی، پولیس کے مطابق لاش ایک یا دو دن پرانی معلوم ہوتی تھی۔















































