اسلام آباد (این این آئی)نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے ) کے ایک اور لاپتا عہدیدار ڈپٹی ڈائریکٹر محمد عثمان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے ) کی تحویل میں ہونے کا انکشاف ہوا ہے، انہیں اختیارات کے ناجائز استعمال اور بھتہ خوری کے ایک مقدمے میں حراست میں لیا گیا ہے۔واضح رہے کہ رپورٹ کیا گیا تھا کہ مبینہ طور پر رواں ماہ کے آغاز میں این سی سی آئی اے کے ڈپٹری ڈائریکٹر کو اسلام آباد سے اغوا کیا گیا۔گزشتہ ہفتے اسلام آباد ہائی کورٹ نے پولیس کو محمد عثمان کو تلاش کرنے کے لیے مزید ایک ہفتے کی مہلت دی تھی، یہ پیش رفت اْس وقت سامنے آئی تھی، جب روزینہ عثمان نے اپنے شوہر کی بازیابی کے لیے درخواست دائر کی تھی، انہوں نے الزام لگایا تھا کہ 14 اکتوبر کو چار مسلح افراد نے ان کے شوہر کو اغوا کرلیا تھا تاہم لاہور کے جوڈیشل مجسٹریٹ نعیم وٹو کے 29 اکتوبر کے ایک مختصر حکم نامے کے مطابق محمد عثمان ایف آئی اے کی تحویل میں تھے اور انہیں تین دن کے جسمانی ریمانڈ پر دیا گیا ہے اور ہدایت کی گئی ہے کہ انہیں ہفتے کو ضلعی عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔ایف آئی اے کے تحقیقاتی افسر کی جانب سے جمع کرائی گئی ریمانڈ کی درخواست کے مطابق این سی سی آئی اے کے عہدیدار کو بدھ کو گرفتار کیا گیا، ان پر دیگر افسران کے ساتھ ملی بھگت، اختیارات کے ناجائز استعمال اور رشوت وصول کرنے کے الزامات ہیں۔
محمد عثمان کو اْس مقدمے میں نامزد کیا گیا جو پیر کو یوٹیوبر سعد الرحمٰن عرف ڈکی بھائی کی اہلیہ عروب جتوئی کی جانب سے درج کرایا گیا تھا، ڈکی بھائی کو سوشل میڈیا پر جوا ایپس کی تشہیر کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔مقدمے میں محمد عثمان کے علاوہ لاہور اور اسلام آباد دفاتر سے 6 دیگر این سی سی آئی اے اہلکاروں کو بھی نامزد کیا گیا، جن میں اسلام آباد کے ڈپٹی ڈائریکٹر ایاز خان اور انسپکٹر سلمان عزیز شامل ہیں۔ایف آئی آر پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 109 (اعانت کی سزا، اگر اعانت کے نتیجے میں جرم سرزد ہو اور اس کے لیے کوئی خاص سزا مقرر نہ ہو) اور 161 (سرکاری ملازم کی جانب سے کسی سرکاری فعل کے بدلے ناجائز معاوضہ قبول کرنا) کے تحت درج کی گئی، اس کے ساتھ انسداد بدعنوانی ایکٹ کی دفعہ 5(2)47 بھی شامل کی گئی، جو سرکاری ملازمین کی مجرمانہ بدعنوانی سے متعلق ہے۔ایف آئی آر کے مطابق این سی سی آئی اے نے سعد الرحمن کو گرفتار کیا تھا اور اس کیس کی تفتیش لاہور این سی سی آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر شعیب ریاض کے سپرد کی گئی تھی۔تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ شعیب ریاض نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے اپنے کارندوں کے ذریعے سعد الرحمٰن کے اہلِ خانہ سے 90 لاکھ روپے رشوت لی، مزید الزام لگایا گیا کہ شعیب ریاض نے اس مقصد کے لیے سعد الرحمٰن کے وکیل چوہدری عثمان کے ساتھ بھی ملی بھگت کی۔ایف آئی آر کے مطابق شعیب ریاض نے عروب جتوئی کو ریلیف دینے کے بہانے 60 لاکھ روپے اور سعد الرحمن کے عدالتی ریمانڈ کے لیے مزید 30 لاکھ روپے وصول کیے، جو اس وقت جسمانی ریمانڈ پر تھے۔اگست میں شعیب ریاض نے اپنے فرنٹ مین عزیز کے ذریعے شیخوپورہ میں 60 لاکھ روپے نقد حاصل کیے، جبکہ باقی 30 لاکھ روپے کے لیے شہباز نامی ایک اور فرنٹ مین کے ذریعے 10، 10 لاکھ روپے کے تین چیک وصول کیے گئے۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ شعیب ریاض نے 50 لاکھ روپے لاہور این سی سی آئی اے کے قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر زوار احمد کے ایک دوست کے پاس امانتاً رکھوائے، جبکہ 5 لاکھ روپے سلمان عزیز، وکیل چوہدری عثمان اور ایڈیشنل ڈائریکٹر سرفراز کو دیے۔شعیب ریاض نے خود 20 لاکھ روپے اپنے پاس رکھے اور بتایا گیا کہ اس نے سعد الرحمن کے اکاؤنٹ سے بائنینس کے ذریعے تین لاکھ 26 ہزار 420 ڈالر اپنے اکاؤنٹ میں منتقل کیے۔ایف آئی آر میں کہا گیا کہ تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ملزمان نے گرفتار سعد الرحمٰن کے اہلِ خانہ کو دھوکے میں رکھا، ان سے ریلیف فراہم کرنے کے بہانے پیسے لیے اور اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔بتایا گیا کہ ملزمان ایک نیٹ ورک کی صورت میں کام کر رہے تھے، جو ہر ماہ آن لائن فراڈ میں ملوث کال سینٹرز، کمپنیوں اور افراد سے رشوت وصول کرتے تھے، اپنے حصے رکھنے کے بعد وہ باقی رقم اپنے اعلیٰ افسران کو دیتے تھے۔ایف آئی آر کے مطابق لاہور کے ڈائریکٹر زوار اور سرفراز ہر ماہ تقریباً 10 لاکھ روپے اسلام آباد میں موجود دو ڈپٹی ڈائریکٹرز، محمد عثمان اور ایاز، کو بھیجتے تھے، جو پھر یہ رقم ‘ اعلیٰ سطح’ تک پہنچاتے تھے۔ایف آئی اے کے لاہور اینٹی کرپشن سرکل کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر سید زین العابدین کو اس مقدمے کی تحقیقات سونپی گئی ہیں۔















































