کراچی(این این آئی)صدر سی آئی اے سینٹر میں ایس آئی یو پولیس کی حراست میں پولیس تشدد سے نوجوان عرفان کی موت سے متعلق مزید سنسنی خیز انکشافات سامنے آگئے ہیں۔کراچی میں پولیس حراست کے دوران نوجوان عرفان کی ہلاکت نے سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔ واقعہ صدر سی آئی اے سینٹر میں پیش آیا جہاں عرفان سمیت چار نوجوانوں کو مبینہ طور پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔مقتول کے کزن سلمان، جو اس وقت بھی حراست میں موجود تھا، نے بتایا کہ بدھ کی صبح 12 بجے چاروں نوجوانوں کو عائشہ منزل کے قریب سے حراست میں لیا گیا، آنکھوں پر پٹیاں اور ہاتھ پیر باندھ کر پانچ سے چھ گھنٹے تک پولیس موبائل میں گھمایا گیا۔سلمان کے مطابق، بعد ازاں انہیں صدر سی آئی اے سینٹر کے کمرے میں لے جا کر تشدد کیا گیا، پانی مانگنے پر کئی گھنٹوں بعد ایک ہی گلاس پانی چاروں کو دیا گیا۔ عرفان کو دوسرے کمرے میں منتقل کر کے شدید تشدد کیا گیا، جس سے اس کی حالت بگڑ گئی۔سلمان کے مطابق، عرفان کے بے ہوش ہونے کے بعد بھی اہلکار اسے مارتے رہے اور موت کے بعد لاش کو گھسیٹ کر دوسرے کمرے میں لے گئے۔
سلمان نے مزید بتایا کہ پولیس اہلکار ہمیں دوسرے کمرے سے نکال کر عرفان کے پاس لائے ہم عرفان کی ہتھیلیاں مسلتے رہے لیکن عرفان ہوش میں نہ آیا۔پولیس ذرائع کے مطابق پوسٹ مارٹم کے وقت عرفان کی لاش 36 گھنٹے سے زائد پرانی تھی، عرفان کو پولیس نے بدھ 22 اکتوبر کو حراست میں لیا تھا، اسی دن عرفان دم توڑ گیا تھا۔پولیس ذرائع کے مطابق شام سات بجے لاش جناح اسپتال لائی گئی، ایم ایل او نے پوسٹ مارٹم سے انکار کر دیا تو اہلکار لاش واپس لے گئے، جمعرات کو اہلکاروں نے دوبارہ پوسٹ مارٹم کرانے کی کوشش کی تھی۔جمعہ کی صبح مجسٹریٹ کی نگرانی میں میڈیکل بورڈ نے پوسٹ مارٹم مکمل کیا، عرفان کے جسم پر تشددکے سات بڑے نشانات پائے گئے، عرفان کے سر پر چوٹ، چہرے، کمر اور نازک اعضا پر بھی تشدد کیا گیا تاہم موت کی وجہ کا تعین کیمیکل ایگزامن رپورٹ کے بعد ہوسکے گا۔
یاد رہے کہ پولیس کی حراست میں دم توڑنے والے نوجوان عرفان کی ہلاکت کے بعد 3 اے ایس آئی سمیت 7 اہلکارمعطل کردیے گئے ہیں۔عرفان کو بدھ کی صبح عائشہ منزل سے حراست میں لیا گیا اور اگلے روز جمعرات کی شام عرفان کے چچا کو پولیس نے بلاکر موت سے آگاہ کیا۔ذرائع نے بتایا کہ پولیس اہلکاروں نے پہلے بدھ کے روز جناح اسپتال میں پوسٹ مارٹم کرانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے، بعد ازاں لاش کو جمعرات کی شام پہلے نجی کلینک اور پھر جناح اسپتال منتقل کیا گیا۔ اسپتال میں عرفان کی موت کی تصدیق کے بعد پولیس اہلکار موقع سے فرار ہوگئے۔پولیس ذرائع کے مطابق عرفان کے چہرے اور کمر پر بھی واضح تشدد کے نشانات موجود تھے۔















































