پشاور (نیوز ڈیسک) خیبر پختونخوا میں مالیاتی بدعنوانی کا ایک بڑا اسکینڈل سامنے آیا ہے، جس میں سرکاری بینک اکاؤنٹس سے 40 ارب روپے سے زائد کی غیرقانونی منتقلی کا انکشاف ہوا ہے۔ اس مالی بے ضابطگی نے نہ صرف اداروں کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے ہیں بلکہ شفافیت کے دعووں کو بھی چیلنج کر دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق، یہ اسکینڈل ملک کی مالی تاریخ کے بدترین واقعات میں شامل ہو سکتا ہے۔ اب تک 50 سے زیادہ بینک اکاؤنٹس کو منجمد کیا جا چکا ہے، جبکہ تحقیقات کا دائرہ مسلسل وسیع ہو رہا ہے۔ نیب کو ملنے والی معلومات سے انکشاف ہوا ہے کہ ایک شخص جو پیشے کے اعتبار سے ڈمپر ڈرائیور ہے، اس کے نام پر قائم جعلی کمپنی کے بینک اکاؤنٹس میں تقریباً 7 ارب روپے کی مشکوک ٹرانزیکشنز ہوئیں، جن میں سے ساڑھے چار ارب فوری منجمد کر دیے گئے۔
ابتدائی چھان بین میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ضلع کے سرکاری کھاتوں سے تقریباً ایک ہزار جعلی چیکس جاری کیے گئے۔ ان سرگرمیوں میں سیاسی اور بیوروکریٹک سطح پر بااثر افراد کے ملوث ہونے کے شواہد بھی سامنے آ رہے ہیں۔
نیب ذرائع کے مطابق اپر کوہستان میں ترقیاتی بجٹ کا سالانہ حجم بمشکل ایک ارب روپے تک ہوتا ہے، لیکن 2020 سے 2024 کے درمیان پانچ برسوں میں 40 ارب روپے سے زیادہ کی رقم حکومتی اکاؤنٹس سے غیر قانونی طور پر نکالی گئی۔ اس نوعیت کی منظم دھوکہ دہی نے ماہر تفتیش کاروں کو بھی حیرت میں ڈال دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق، یہ فراڈ زیادہ تر C&W (کمیونی کیشن اینڈ ورکس) ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے کیا گیا، جس میں جعلی سیکورٹی ریفنڈز، فرضی بل، اور دستاویزات کا سہارا لے کر فنڈز نکلوائے گئے۔ سرکاری قواعد و ضوابط کو مکمل نظر انداز کرتے ہوئے ادائیگیاں کی گئیں، جنہیں DAO (ضلع اکاؤنٹس آفیسر) نے منظور کیا۔
اس اسکینڈل میں ملوث سرکاری بینک کی داسو برانچ کے کچھ افسران نے اسٹیٹ بینک کے مالیاتی ضوابط اور منی لانڈرنگ سے متعلق قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی۔ نتیجتاً، نیب نے نہ صرف متعلقہ سرکاری دفاتر سے ریکارڈ تحویل میں لے لیا ہے بلکہ مزید 10 ارب روپے مالیت کے مشتبہ اکاؤنٹس بھی منجمد کر دیے ہیں۔
تحقیقات کے تحت اب تک 30 افراد کو نوٹسز جاری کیے جا چکے ہیں، جبکہ نیب سرکاری بینک، DAO، C&W، اکاؤنٹنٹ جنرل اور DG آڈٹ کے عہدیداران کے کردار کا بھی جائزہ لے رہا ہے۔
یہ معاملہ خیبر پختونخوا کے مالیاتی نظام میں موجود کمزوریوں کی واضح نشاندہی کرتا ہے۔ کچھ شواہد اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ یہ مالیاتی بے ضابطگیاں محض چند افراد کی کارستانی نہیں بلکہ اس میں اعلیٰ حکام کی شمولیت بھی ممکن ہے، جنہوں نے خاموشی سے ان اقدامات کو ممکن بنایا۔
اس گھپلے کے بعد نیب نے ابتدائی انکوائری کو مکمل تحقیقات میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جیسے جیسے تفتیش کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے، امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مزید بڑی سیاسی اور سرکاری شخصیات کے نام بھی سامنے آئیں گے۔
دوسری جانب، جن ٹھیکیداروں یا اکاؤنٹس ہولڈرز کے اکاؤنٹس منجمد کیے گئے ہیں، ان میں سے بعض نے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے خلاف نیب کی کارروائی کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہو سکتی ہے، اور ان کے مالی معاملات مکمل طور پر قانونی ہیں۔