جمعرات‬‮ ، 07 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

پی ٹی آئی حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد جنرل باجوہ اور جنرل فیض کے کہنے پر لائی گئی، فضل الرحمن

datetime 16  فروری‬‮  2024
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(این این آئی)جمعیت علمائے اسلام (ر)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہاہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے کہنے پر لائی گی،اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ الیکشن صاف اور شفاف ہوئے ہیں تو 9مئی کا بیانیہ دفن ہوگیا، عمران خان سے میرا کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں ہے، ہمارے درمیان ایسی کوئی انڈرسٹینڈنگ نہیں ہے کہ میں ان کے فلسفے اور حکمت عملی کو سمجھ سکوں ، آئندہ پارلیمان پی ٹی آئی والے دور سے زیادہ ہائبرڈ پلس ہوگا، موجودہ پارلیمنٹ کا کوئی مستقبل نظر نہیں آرہا،پی ٹی آئی کیساتھ دماغ کا فرق ہے جو ختم ہوسکتا ہے، اسمبلی میں ہم تحفظات کیساتھ جارہے ہیں اس لیے وزارت عظمیٰ یا دیگر عہدوں کیلئے کسی کی حمایت نہیں کریں گے۔

نجی ٹی وی چینل کوانٹرویودیتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ حالیہ انتخابات میں جو کچھ ہوا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے لیکن انتخابی چوری ایسا عمل ہے جس کا گواہ یا شواہد پیش کرنا دشوار ہوتا ہے، پورا الیکشن چوری ہوا ہے،نہ کہنے والی کہانیاں ہیں کہ ان انتخابات میں کیا کچھ ہوا۔انہوں نے کہاکہ ہم نے انتخابات کو باقاعدہ طور پر مسترد کردیا ہے اور ہم اس کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔انہوںنے کہاکہ انتخابات میں دھاندلی کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کریں گے اور فیصلے ایوان میں نہیں میدان میں ہوں گے، 2018کے اور حالیہ انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے تمام بڑی جماعتوں نے موقف بدلا لیکن ہم وہ واحد جماعت ہیں جو اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ اس وقت بھی دھاندلی ہوئی تھی اور اب بھی دھاندلی ہوئی ہے اور جس کا بظاہر فائدہ (ن)لیگ کو ہوا ہے۔مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ تاثر موجود ہے کہ نواز شریف کو لاہور کی سیٹ دی گئی ہے، یہ سیٹ انہوں نے رکھنی ہے یا چھوڑنی ہے یہ فیصلہ خود انہوں نے کرنا ہے، یہ جو حکومت نہیں لے رہے شاید یہ بھی اسی وجہ سے ہو۔

پی ڈی ایم سے متعلق سوال پر انہوں نے کہاکہ یہ انتخابی یا حکومتی اتحاد نہیں تھا،اس تحریک میں ہم اختلافات کے باوجود اکٹھے چل رہے تھے کیونکہ جو حکمت عملی تیار کی گئی اس سے ہمیں اتفاق نہیں تھا اور یہ ہمارے تمام دوست جانتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ تمام اکابرین اور دوست جانتے ہیں کہ میں پی ٹی آئی کے خلاف عدم اعتماد کے حق میں نہیں تھا لیکن میں نے اپنے دوستوں کیلئے اور وحدت کیلئے اپنے موقف اور رائے کی قربانی دی تھی، عدم اعتماد کی تحریک پیپلزپارٹی چلا رہی تھی، جنرل (ر)فیض حمید میرے پاس آئے اور کہا سسٹم کے اندر رہ کر آپ جو کرنا چاہیں ہمیں اعتراض نہیں ہوگا لیکن سسٹم سے باہر جاکر نہیں،میں نے اس سے انکار کردیا تھا لیکن پھر جب پی ٹی آئی کے لوگ، ایم کیو ایم اور بی اے پی ٹوٹ کر آئی تو انہوں نے کہا کہ اب ہمارے پاس اکثریت ہے۔

سربراہ جے یو آئی (ف)نے کہا کہ اگر اس وقت میں عدم اعتماد سے انکار کرتا تو کہا جاتا کہ مولانا نے عمران خان کو بچا لیا، عدم اعتماد سے متعلق جنرل (ر)فیض اور جنرل (ر)قمر جاوید باجوہ ہمارے ساتھ رابطے میں تھے اور ان کی موجودگی میں سب کو بلایا گیا اور سب کے سامنے کہا گیا کہ آپ نے ایسا کرنا ہے اور اس طرح کرنا ہے۔اتحادی حکومت کو پیش آنے والی معاشی مشکلات سے متعلق انہوں نے کہا کہ ان مشکلات کی وجہ سے ہی یہ بطور دلیل کہا جارہا تھا کہ شہباز شریف کی حکومت ڈیڑھ سال میں ڈلیور نہیں کر سکی اور مہنگائی بڑھتی چلی گئی۔پی ٹی آئی کے وفد سے ممکنہ ملاقات کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ جب بات ہوگی اس کے بعد پتا چلے گا کہ کیا جواب دینا ہے،پی ٹی آئی کے ساتھ دماغ کا فرق ہے جو ختم ہوسکتا ہے، اسمبلی میں ہم تحفظات کے ساتھ جارہے ہیں اس لیے وزارت عظمیٰ یا دیگر عہدوں کے لیے کسی جماعت کی حمایت نہیں کریں گے۔

انہوں نے کہاکہ حکومت بنانے کیلئے جو حکمت عملی اختیار کی جارہی ہے میں اسے کامیاب حکمت عملی نہیں سمجھتا لیکن اگر انہوں نے فیصلہ کیا ہے تو اس کے اچھے برے کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے۔ایک سوال پر انہوںنے کہاکہ اگر اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ الیکشن صاف اور شفاف ہوئے ہیں تو 9مئی کا بیانیہ دفن ہوگیا اور اس کا مطلب لوگوں نے غداروں کو ووٹ دئیے ہیں، ریاستی اداروں کا احترام ہے لیکن وہ سیاست میں کیوں آتے ہیں،ہم ان کو سپورٹ کریں گے وہ جمہوری نظام کو سپورٹ کریں۔

سربراہ جے یو آئی (ف)نے ایک سوال پر کہاکہ عمران خان سے میرا کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں ہے، ہمارے درمیان ایسی کوئی انڈرسٹینڈنگ نہیں ہے کہ میں ان کے فلسفے اور حکمت عملی کو سمجھ سکوں کہ انہوں نے مسلم لیگ (ن)،پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ساتھ حکومت بنانے کیلئے بات چیت سے انکار کیوں کیا ہے۔اگلی پارلیمان سے متعلق انہوں نے کہا کہ یہ پارلیمان نہیں چلے گی، اس کی کوئی حیثیت و اہمیت نہیں ہے،پارلیمان میں فیصلے اور پالیسیاں کہیں اور سے آئیں گی، آئندہ پارلیمان پی ٹی آئی والے دور سے زیادہ ہائبرڈ پلس ہوگا، موجودہ پارلیمنٹ کا کوئی مستقبل نظر نہیں آرہا۔انہوںنے کہاکہ(ن)لیگ نے 66سیٹوں کے ساتھ ملک بچانے کیلئے حکومت لینے کا اعلان کیا،یہ پارلیمان چلنے والا پارلیمان نہیں ہوگا، سیاسی اور معاشی عدم استحکام ہوگا اور ملک بحرانوں کا شکار ہوتا چلا جائے گا۔



کالم



دوبئی کا دوسرا پیغام


جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…

گیم آف تھرونز

گیم آف تھرونز دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی جانے…

فیک نیوز انڈسٹری

یہ جون 2023ء کی بات ہے‘ جنرل قمر جاوید باجوہ فرانس…

دس پندرہ منٹ چاہییں

سلطان زید بن النہیان یو اے ای کے حکمران تھے‘…

عقل کا پردہ

روئیداد خان پاکستان کے ٹاپ بیوروکریٹ تھے‘ مردان…