لاہور( این این آئی) وفاقی وزیر و مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما میاں جاوید لطیف نے کہا ہے کہ ہلکی ہلکی آنچ پر آوازیں اٹھ رہی ہیں اس کو باہر بھیج دیا جائے لیکن کوئی عمران خان کو باہر بھیجنے کی جرات نہ کرے ،سیاسی قیادت کے سینوں میں بہت سے راز ہیں، اگر میری ریاست خطرے میں پڑ گئی تو میں زبان پر لگا تالا کھولوں گا،کیا دنیا کے مالیاتی ادارے پاکستان کے ساتھ سیاست نہیں کر رہے؟
،اداروں میں بیٹھے جو لوگ سیاست نہیں کر سکتے وہ سیاست کروا رہے ہیں، اداروں میں بیٹھے لوگوں کو بے نقاب نہ کیا تو لوگ اداروں پر انگلیاں اٹھائیں گے،کیا اس سے پہلے کبھی پاکستان مخالف قوتوں کے اس طرح خطوط آئے ہیں جو عمران خان کے لئے آئے ہیں؟ چار سال اپوزیشن ،نواز شریف ، ان کی جماعت اوران کے خاندان کے ساتھ جو کچھ کیا گیا کیا اس پر کوئی خط آیا، 2018 میں جب آر ٹی ایس بیٹھا تھا کیا کوئی خط آیا تھا؟،عدالتوں کے فیصلے دیکھ لیں نواز شریف کی وطن واپسی کے سوال کا جواب خود ہی مل جائے گا،کسی کی خواہش کے مطابق کبھی استعفے قبول کئے جائیں اور ان کی خواہش نہیں ہے تو اگلے لمحے استعفے واپس ہوں، کبھی سپیکر کو استعفیٰ دے کر کہیں ہمارا استعفیٰ قبول کیا جائے اورجب ذہن میں آئے اب یہ کھیل دوسرے طریقے سے کھیلنا ہے تو ہمارے استعفے واپس کر دیں،جو استعفے سپیکر کو دئیے جا چکے ہیں وہ سپیکر کا اختیار ہے کہ اس کو قبول کریں یہ کسی اور ادارے کے اختیار میں نہیں کہ منظور شدہ استعفوں والوں کو ممبر کہہ کر ان کا رخ اسمبلی کی طرف کردے ، پہلے عدالت عظمیٰ میں آئین و قانون کو ری رائٹ کیا گیا اور اب نچلی عدالتوں بھی وہی کر رہی ہیں ۔
پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر جاوید لطیف نے کہا کہ ہم مختلف اوقات میں ذکر کرتے آئے ہیں کہ پاکستان کے باہر سے قوتیں پاکستان کے اندر مداخلت کر رہی ہیں وہ آج قوتیں کھل کر سامنے آ گئی ہیں ،پاکستان کے اندر سے ریاستی اداروں میں بیٹھے لوگ جو ان کے لئے سہولت کار ی کا کردار ادا کر رہے ہیں وہ بھی اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہ گیا ۔
کیا اس سے قبل کسی دنیا کے طاقتور ملک سے اتنی بھاری تعداد میں ممبران نے کسی کے لئے خط لکھا ،یہ کیا خط اس سے پہلے جب نواز شریف کو ہائی جیکر بنا کر سزا دی گئی تھی ،ذوالفقا رعلی بھٹو کو ہٹا کر جب مارشل لاء لگا کیا اس وقت پاکستان مخالف قوتوں کے اس طرح خطوط آئے اور کیا اس وقت پاکستان کے خیر ممالک کی آواز کو سنا گیا ،2018میں آر ٹی ایس بند ہوا تھا کوئی خط آیا تھا ، باہر کے ممالک کو تشویش ہوئی تھی۔
جو چار سال ریاستی اداروں کو ایک پیج پر کر کے جو کچھ اپوزیشن کے ساتھ کیا گیا جو نواز شریف کے ساتھ کیا اس کے خاندان اور جماعت کے ساتھ کیا گیا اس پر کوئی خط آیا کسی نے آوازبلند کی یہی کہا گیا بس قبول کرو ۔آج جو کچھ ہو رہا ہے کیا دنیا بھر کے مالیاتی ادارے پاکستان کے ساتھ سیاست نہیں کر رہے ،کڑی شرائط پر معاہدے کی باتیں ہوتی ہیں تاکہ پاکستان کی عوام کو کوئی ریلیف نہ دیا جا سکے اور اس کا فائدہ کس کو دیا جارہا ہے۔