اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی اور کالم نگار حامد میر اپنے آج کے کالم میں لکھتے ہیں کہ یاد کیجئے کہ 2019ء میں جنرل باجوہ کے بطور آرمی چیف تین سال مکمل ہوئے تو ملک ایک نئے پھڈے میں پھنسا ہوا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان، لندن میں بیٹھے نواز شریف اور
نیب کے قیدی آصف زرداری نے ایک ’’عظیم اتفاق رائے‘‘ کے ساتھ جنرل باجوہ کو توسیع دے دی لیکن سپریم کورٹ نے پوچھا کہ یہ توسیع کس قانون کے تحت دی گئی؟ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے سیاستدان پارلیمینٹ میں اکٹھے ہوگئے اور توسیع کا قانون منظور کرا کے سپریم کورٹ کا منہ بند کردیا۔ جس جنرل باجوہ کو عمران خان نے خود توسیع دلائی اور سیاسی مخالفین کے ساتھ مل کر ان کی توسیع کا قانون بنوایا، آج وہی جنرل باجوہ بہت بڑا ولن بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے وطن عزیز میں آرمی چیف کو صدر اور وزیر اعظم سے زیادہ طاقتور سمجھا جاتا ہے اور اسی لئے ہر وزیر اعظم اپنی مرضی کا آرمی چیف لانا چاہتا تھا۔ کیا یہ تقرری صرف اور صرف میرٹ پر نہیں ہوسکتی؟ اگر عمران خان بھی 2019ء میں میرٹ کا خیال رکھتے تو آج ہاسپیٹل میں پریس کانفرنس کے ذریعہ یہ نہ بتارہے ہوتے کہ مجھ پر قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر درج نہیں ہو رہی ۔ قانون کے تحت عمران خان کو اپنی مرضی کی ایف آئی آر درج کرانے کا حق حاصل ہے لیکن جس ملک میں ساری طاقت آرمی چیف کے پاس ہو وہاں قانون پیچھے رہ جاتا ہے ، فوج آگے نکل جاتی ہے۔