اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )سینئر کالم نگا رجاوید چودھری اپنے کالم ’’یہ فیصلے ہمارے نہیں ہوتے ، پہلا حصہ ‘‘ میں لکھت ہیں کہ ۔۔۔بھٹو صاحب نے جیل میں آخری ملاقات کے دوران بے نظیر کو وصیت کی‘ آپ کی تقدیر میں وزیراعظم بننا لکھا ہے لیکن یہ یاد رکھنا آپ وزیراعظم بن کر کسی اسلامی ملک کو اپنی نیوکلیئر ٹیکنالوجی نہ دینا کیوں کہ مغربی ملک پاکستانی بم کو کڑوی گولی سمجھ کر
نگل لیں گے لیکن یہ کسی قیمت پر اسلامی بم برداشت نہیں کریں گے‘ محترمہ نے یہ وصیت پلے باندھ لی چناں چہ جب جنرل اسلم بیگ نے ان سے نیوکلیئر ٹیکنالوجی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت مانگی تو بے نظیر نے یہ تجویز سختی سے مسترد کردی‘ واجد صاحب نے انکشاف کیا‘ بے نظیر بھٹو نے 1988ء میں شمالی کوریا اور چین سے میزائل ٹیکنالوجی حاصل کی ‘ وہ میزائل کی ڈسک اور نقشے اپنے لمبے کوٹ میں چھپا کر پاکستان لائی تھیں‘ وہ اکثر کہتی تھیں ’’میں نے اور میرے والد نے پاکستان کے لیے اتنا کچھ کیا لیکن یہ مجھ سے اب بھی خوش نہیں ہیں‘‘ اور واجد صاحب نے انکشاف کیا‘ امریکا کے صدر بل کلنٹن بے نظیر بھٹو کے ذریعے اسرائیل کو تسلیم کرانا چاہتے تھے مگر بے نظیر نے انکار کر دیا‘سردار فاروق لغاری انٹیلی جینس ایجنسی کے آدمی تھے اور انہیں پارٹی میں باقاعدہ پلانٹ کیا گیا تھا‘واجد شمس الحسن نے دعویٰ کیا رحمن ملک ایف آئی اے میں تھے اور انہوں نے بے نظیر بھٹو کے خلاف سنگا پور ائیرلائین کے طیارے کے اغواء کا جھوٹا مقدمہ بنا دیا تھا‘ بے نظیر انہیں اکثر کہا کرتی تھیں ’’رحمن سنگا پور ائیرلائین جیسی تفتیش نہ کرنا‘‘ واجد صاحب نے انکشاف کیا‘ مجھے بے نظیر کی حکومت کے خاتمے کے بعد گرفتار کر لیا گیا‘ ایف آئی اے کا ایڈیشنل ڈائریکٹر فرید خان میری تفتیش کر رہا تھا‘ وہ ایمان دار افسر تھا لیکن اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا ہائی کمشنر کون ہوتا ہے‘ اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا ’’سر میں نے کمشنر‘ ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر تو سنا ہے مگر یہ ہائی کمشنر کیا چیز ہوتی ہے‘‘ میں نے اس سے کہا ’’آپ یہ صدر فاروق لغاری سے پوچھو جس نے مجھے پکڑوایا ہے‘‘۔