کراچی(این این آئی)کراچی میں ایک ہفتہ قبل فرسٹ ایئر کی طالبہ کی آبرو ریزی کرنے میں نامزد ملزمان کو پولیس نے کلیئر قرار دے دیا ہے، جبکہ کیس میں ملوث ریٹائرڈ پولیس افسر کے بیٹے کو حراست میں لے لیا۔پولیس نے دعوی کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیس کی تحقیقات میں اب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جن لڑکوں کو کیس میں ملزم
نامزد کیا گیا تھا، وہ اس واقعہ میں ملوث نہیں۔پولیس نے یہ بھی دعوی کیاکہ ڈیجیٹل شواہد کی روشنی سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ لڑکی کے اغوا کے دعوے میں کوئی سچائی نہیں ہے۔کراچی کے علاقے گلشن حدید سے تعلق رکھنے والی لڑکی کو رواں ماہ 9 فروری کو اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ کالج جا رہی تھی۔ بعد ازاں لڑکی وقوعہ کے اگلے روز ڈیفنس پولیس کو سڑک کنارے نیم بے ہوشی کی حالت میں ملی، جس کے بعد اسٹیل ٹاؤن پولیس کو لڑکی اور حادثے سے متعلق آگاہ کیا گیا۔واقعہ کے بعد اسٹیل ٹان پولیس نے متاثرہ لڑکی کے والد کی مدعیت میں تین لڑکوں کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ مقدمہ درج کرنے کے چند گھنٹوں میں ہی پولیس نے نامزد ملزمان کو گرفتار کیا۔واقعہ کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ایسٹ زون کے ڈی آئی جی نعمان صدیقی نے 7 اراکین پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی، جس میں ایس ایس پی ملیر عرفان بہادر، ایس ایس پی ملیر انویسٹی گیشن، ایس پی ملیر اور ہائی رینکنگ خاتون افسر شامل تھیں۔تحقیقاتی ٹیم میں شامل ممبر نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ تحقیقاتی ٹیم نے حادثے اور دیگر مقامات کی سی سی ٹی وی ویڈیو حاصل کرلی ہے، جب کہ بازیابی اور اغوا کے مقامات کا بھی فرانزک کیا گیا ہے۔ کیس میں نامزد ملزمان اور لڑکی کا کال ڈیٹا ریکارڈ(سی ڈی آر)بھی حاصل کرلیا گیا ہے۔
پولیس افسر نے بتایا کہ ملزمان کے ڈی این اے بھی فرانزک جانچ کیلئے لیبارٹری کو ارسال کیے گئے، جب کہ اغوا کے مقام پر موجود عینی شاہدین کے بیانات بھی قلمبند کرلیے گئے ہیں۔ حکام کی جانب سے میڈیکل رپورٹ سے متعلق کچھ واضح نہیں کیا گیا۔پولیس نے دعوی کیاکہ اغوا کے مقام سے حاصل شدہ سی سی ٹی وی ویڈیو اور عینی
شاہدین کے مطابق لڑکی کو اغوا نہیں کیا گیا تھا، بلکہ لڑکی خود رکشہ لے کر اپنی مرضی سے گئی تھی۔پولیس کے مطابق درج کی گئی ایف آئی آر میں لڑکی کے والد کے کہنے پر ان 3 لڑکوں کے ناموں کو شامل کیا گیا تھا، تاہم ڈی این اے رپورٹ کی روشنی میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ نامزد ملزمان اس کیس میں ملوث نہیں تھے، جب کہ کال
ڈیٹا ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے بعد پتا چلا ہے کہ لڑکے واردات والے روز لڑکی کیساتھ رابطے میں نہیں تھے۔تحقیقاتی ٹیم میں شامل ایک اور افسر نے بتایاکہ حاصل کردہ سی ڈی آر کی روشنی میں ایک اور لڑکے کو حراست میں لیا گیا تھا، تاہم اس کیس میں اس کے ملوث ہونے کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ لڑکے کی لڑکی سے دوستی فون پر
ہوئی تھی مگر ان کی کبھی کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔لڑکی کے کال ڈیٹا سے ایک اور مشکوک شخص کو کراچی کے علاقے ڈیفنس سے گرفتار کیا گیا ہے۔ گرفتار شخص پولیس کے ریٹائرڈ افسر کا بیٹا ہے۔ سی ڈی آر کے مطابق لڑکا اغوا والے روز لڑکی سے رابطے میں تھا۔واقعہ سے متعلق جب متاثرہ لڑکی کے والد سے گفتگو کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ان کا بڑا بھائی معاملے کو دیکھ رہا ہے اور انہیں اب تک ہونے والی تحقیقات سے متعلق کوئی معلومات نہیں۔