کوئٹہ (آن لائن )بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سرداراخترجان مینگل نے کہاہے کہ جب ملک کا وزیراعظم اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتا تواس ملک کی عوام کا اللہ ہی حافظ ہے،حکومت کو اپوزیشن جماعتوں کو دہشتگردوں سے خطرہ تو نظرآتاہے لیکن عوام کو ان دہشتگردوں سے خطرہ حکمرانوں کو نظر نہیں آتا، عمران خان نے اپنے
مشیروں اور وزیروں کو بھیج کرلواحقین کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے نمک پاشی کی ،نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے منتخب وزیراعظم کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے مسلمانوں سے یکجہتی کی انہیں کابینہ سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں پڑی ،وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھنے کے بعد وہ عمران خان اب پاکستان میں نظر نہیں آرہے یا شاید بلوچستان کے لوگوں کی طرح گمشندہ لوگوں میں تو شامل نہیں ہے ،شہداء کے لواحقین یہ سب کچھ کرکے یہ محسوس کرارہے ہیں کہ وہ آج بھی غیر محفوظ ہیں ،جب چوروں اور دہشتگردوں کی سرپرستی ہوگی تو ان کی حوصلہ شکنی نہیں بلکہ حوصلہ افزائی ہوگی ۔ان خیالات کااظہار انہوں نے نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔سرداراخترجان مینگل نے کہاکہ مچھ واقعہ افسوسناک اور دلخراش واقعہ ہے ،بلوچستان میں یہ پہلا واقعہ نہیں اس سے قبل بھی ایسے واقعات رونما ہوئے وزراء بھی آئے لیکن آج تک کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا،کابینہ کے فیصلے کہیں چیلنج تو نہیں کئے جاسکتے ،نیوزی لینڈ میں غیرمذہب وزیراعظم نے عوام کی نمائندہ وزیراعظم کی حیثیت سے اپنا فرض ادا کیا اور شہداء کے مذہبی رسومات میں نہ صرف شرکت کی بلکہ مسلمان کمیونٹی کی حوصلہ افزائی کی انہوں نے کہاکہ یورپ میں حجاب پر پابندی لگائی جارہی تھی تووزیراعظم نے اسی
حجاب میں آکر مسلمانوں سے یکجہتی کی اور کھڑی رہی ،یہ منتخب اور سلیکٹڈ وزیراعظم میں فرق ہوتاہے جن کو احساس ہو میرے خیال سے ان کو کابینہ کی اجازت نہیں تھی ،وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھنے کے بعد ہمیں وہ عمران خان ہمیں اب پاکستان میں نظر نہیں آرہا وہ شاید کہیں ہمارے بلوچستان کے لوگوں کی طرح گمشدہ لوگوں میں
شامل تو نہیں کیاگیاہے ،دورے بیرون ممالک کے کئے جاتے ہیں اپنے ملک کے کسی حصے جہاں ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں وہاں کے دورے نہیں بلکہ پہنچا جاتاہے فوراََ ان لوگوں کی داد رسی اور اظہار ہمدردی کیلئے آپ کو پہنچنا ہوتا ہے اگر کوئی اپنے آپ کو ذمہ دار وزیراعظم سمجھتاہے ،اپنے مشیروں اور وزیروں کو بھیج کر عمران
خان نے لواحقین کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے نمک پاشی کی ،مشیران کو بھیج کر لواحقین کو آفر کیاجارہاہے ،معاوضے کا آفر ان کی تذلیل کے سوا کچھ نہیں ،یہ سب کچھ کرکے حکمرانوں کو محسوس کرایاجارہاہے کہ ہمارے ساتھ کیا ہورہاہے ڈوب مرنے کا مقام ہے ،آج ملک میں نہ ہی عوام محفوظ ہے اور نہ ہی
فورسز ،دہشتگردی کی یہ وجوہات معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ آئی کیسے ؟ میرے خیال میں دہشتگردی وباء کی صورت میں نہیں آئی بلکہ پیٹرنائز کی گئی اپنے اور اپنے ہمسایوں کے خلاف استعمال کرنے کے بعد انہوں نے آپ کی طرف رخ کردیاہے ۔انہوں نے کہاکہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایک ملک میں جب وزیراعظم اور
وزیراعلیٰ محفوظ نہ ہو ان کیلئے سیکورٹی رسک زیادہ ہو تو وہاں کے لوگ بھیڑ بکریوں کی طرح ہوںگے ،بلوچستان میں ہر پانچ کلومیٹر پر ایف سی ،لیویز اور پولیس کی چیک پوسٹیں ملیںگی سالانہ اربوں روپے سیکورٹی کے نام پر خرچ کیاجاتاہے پھر جب ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں تو سوال اٹھتا ہوگا ،جب سیاسی سرگرمیاں ہوتی
ہے تو سیکورٹی الرٹ جاری کیاجاتاہے جب کوئٹہ میں جلسہ ہو تو کہتے ہیں کہ کوئٹہ میں دہشتگرد گھس گئے ،کبھی ملتان تو کبھی پشاور میں یہ دہشتگرد گھس جاتے ہیں ،اپوزیشن کو دہشتگردوں سے خطرہ حکومت کو دکھائی تو دیتی ہے لیکن عام عوام کو جن دہشتگردوں سے خطرہ ہے وہ انہیں کیوں دکھائی نہیں دیتی ،کیا انہوں نے سلیمانی
ٹوپی پہنی ہوئی ہے یا کوئی ایسا لباس زیب تن کیاہے جو دکھائی نہیں دیتاانہوں نے کہاکہ جب ملک کا وزیراعظم اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتا تواس ملک کی عوام کا اللہ ہی حافظ ہے ،انہوں نے کہاکہ ہمارا فرض بنتاہے کہ دھرنے کے شرکاء کے پاس جائیں ان کے مطالبات ان کا حق ہے ہم لواحقین کی طرح بے بس ہیں ہم صرف انہیں دلاسہ دے سکتے ہیں اس حوالے سے اقدامات صرف حکومت اٹھا سکتی ہے اور اس کا مکمل خاتمہ حکومت کی ذمہ داری ہے ۔