اسلام آباد (این این آئی)پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس رانا تنویر کی زیرصدارت ہوا جس میں نادرا اور ایف بی آر کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا ،نادرا کی طرف سے اسلحہ لائسنس فیس کی مد میں کمیشن لینے کا معاملہ بھی زیر بحث آیا ، آڈٹ حکام نے بتایاکہ 6ہزار لائسنس فیس کے ساتھ 1500 روپے نادرا اضافی وصول کررہا ہے۔ کمیٹی نے کہاکہ فیس کی وصولی کے لیے قانونی طریقہ
کار اختیار کیا جائے ۔پی اے سی نے معاملہ ایک ہفتے میں حل کرنے کی ہدایت کر دی۔ آڈٹ حکام نے بتایاکہ لاء فرم کو وزارت قانون کی منظوری کے بغیر ہائیر کیا گیا، لاء فرم کو 2017 میں ہائر کیا مگر منظوری فروری 2018 میں کی ۔ سیکرٹری داخلہ نے کہاکہ یہ اہم معاملہ تھا اور اچھی نیت سے یہ اقدام کے لیے کیا گیا ، لا فرم کوادائیگی کیلئے پوسٹ ایفیکٹومنظوری اقتصادی رابطہ کمیٹی سیلی جارہی ہے۔ حکام وزارت قانون نے کہا کہ ہمارے پاس معاملہ آیا اور ہدایت کی کہ اٹارنی جنرل کو معاملہ بھجوائیں۔ اجلاس میں ایف بی آر کے ملتان میں جعلی ٹیکس ریفنڈ حاصل کرنے کا معاملہ بھی زیر بحث آیا ۔چیئرمین ایف بی آر کی عدم شرکت پر کمیٹی نے شدید برہمی کا اظہار اور کہاکہ چیئرمین ایف بی آر نہیں آتے تو معاملہ نہیں لیں گے۔ چیئرمین کمیٹی رانا تنویر نے کہاکہ بزنس کمیونٹی کی جیبوں سے ایف بی آر پیسے نکال رہا ہے،ٹیکسٹائل سیکٹر کے چار سال سے انکم ٹیکس واپس نہیں لیا جا رہا۔رانا تنویر نے کہاکہ ایف بی آر حکام ٹیکس ریفنڈ کی کلیکشن کرتے ہیں مگر دیتے نہیں ہیں،ایف بی آر صرف اپنی کلیکشن کو دکھانے کے لیے یہ کرتا ہے۔ مشاہد حسین سید نے کہاکہ ایف بی آر میں ’’ماسی ویڑا ‘‘ بنا ہوا ہے ۔ خواجہ آصف نے کہاکہ ایف بی آر کی وجہ سے برآمدکنندگان مقروض ہوجاتا ہے ۔ چیئر مین کمیٹی نے کہاکہ کمیشن دے کرسرمایہ کاراپنے ٹیکس ریفنڈزحاصل کرتے ہیں، ایف بی آر کے اسپیشل آڈٹ کروا کر رپورٹ ایک ماہ میں دی جائے۔کمیٹی نے ایف بی آر کے ریفنڈز کے ایک سالہ خصوصی آڈٹ کرانے کی ہدایت کی ۔