Zاسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک )سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ حکومت کے دو وفاقی وزراء نے بیچ میں بندے ڈال کر اپوزیشن کی ایسی شخصیت سے رابطہ کیا ہے جس کا نام بتادوں تو آپ یقین نہیں کریں گے، اس شخصیت سے کہا گیا کہ ہم آپ سے بات چیت کیلئے تیار ہیں لیکن مقدمات پر بات نہیں ہوگی باقی قومی ایشوز پر بات کرنے کیلئے تیار ہیں، حکومت کو جواب دیا گیا کہ
کوئی بھی فیصلہ پی ڈی ایم کی قیادت کرے گی صرف ن لیگ نہیں کرسکتی،ن لیگ سے پہلے پیپلز پارٹی سے رابطہ قائم کیا گیا تھا مگر پیپلز پارٹی نے بھی فیصلے کا فورم پی ڈی ایم بتایا تھا۔جیو نیوزکے پروگرام میں حامدمیر کا کہنا تھا کہ عمران خان نے خود کو سہولت دینے والوں سے کہا کہ آپ اپوزیشن سے بات کریں، لیکن ن لیگ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی سمیت پی ڈی ایم میں شامل کوئی جماعت اب ان سہولت کاروں کی بات ایسے نہیں مانتی جیسے پہلے مانی جاتی تھی، سہولت کاروں نے حکومت سے کہا ہے کہ آپ کو اب نہ صرف پی ڈی ایم سے مذاکرات کرنے ہیں بلکہ ایم کیو ایم، پی ایم ایل کیو اور جی ڈی اے سے بھی آپ نے معاملات کرنے ہیں اب ہمیں ان معاملات میں نہ لائیں۔حامد میر نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے زیادہ تر رہنما پی ڈی ایم کے ساتھ جانا چاہتے ہیں، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان پی ڈی ایم کو مرحلہ وار سیاسی اتحاد سے انتخابی اتحاد میں تبدیل کرنے کی بات چل رہی ہے، ن لیگ کی اہم شخصیات نے پیپلز پارٹی کی اہم شخصیات کو تجویز دی ہے کہ ہم آپ کے ساتھ پنجاب میں اور آپ ہمار ے ساتھ کراچی کی کچھ سیٹوں پر ایڈجسٹمنٹ کریں۔ سینئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ حکومت اب اپوزیشن سے بات کرنا چاہ رہی ہوگی، لانگ مارچ سے پہلے مذاکرات سیاسی حکومت کے ساتھ ہوں گے، لانگ مارچ کے بعد امن و امان کے مسئلے کی وجہ سے سیاسی حکومت غیرمتعلق ہوجائے گی اس لئے امن و امان قائم کرنے والی ایجنسیوں سے مذاکرات ہوں گے، اپوزیشن کو لچک دکھاتے ہوئے سیاسی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہئیں، اپوزیشن احتجاج اور لانگ مارچ موخر نہ کرے لیکن ساتھ مذاکرات بھی شروع کرے۔