اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی ، اینکر پرسن اور کالم نگار حامد میر اپنے ایک کالم ”غداروں کا نشیمن ” میں تحریر کرتے ہیں کہ ۔۔۔ایک طرف سردار اختر مینگل کی کوشش سے نواز شریف کی تقریر کوئٹہ کے جلسے میں پہنچی، تو دوسری طرف مسلم لیگ ن
کی صوبائی قیادت سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار ثنا للہ زہری کو جلسے کے اسٹیج پر بٹھانا چاہتی تھی۔مسئلہ یہ تھا کہ سردار ثنا للہ زہری نے 2018 کے الیکشن میں این اے 269 خضدار سے سردار اختر مینگل کیخلاف جیپ کے نشان پر آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑا تھا اور پی بی 39 پر وہ شیر کے نشان سے الیکشن لڑے۔ اختر مینگل یہ سیٹ جیت گئے تھے۔دونوں کے درمیان ایک پرانی عداوت بھی چل رہی ہے۔ 2013 میں ثنا للہ زہری نے اپنے بیٹے اور بھائی کے قتل کی ایف آئی آر اختر مینگل، ان کے والد عطا للہ مینگل، سردار خیر بخش مری اور امان للہ زہری پر در ج کرائی۔ 2019 میں بی این پی مینگل کے رہنما امان للہ زہری کے قتل کا الزام ثنا للہ زہری پر لگایا گیا۔ دونوں اطراف کا جانی نقصان قابلِ افسوس ہے لیکن پی ڈی ایم کے جلسے میں ثنا للہ زہری کی شرکت سے جھگڑے کا اندیشہ تھا۔سابق وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ ہر صورت میں ثنا للہ زہری کو اسٹیج پر بٹھانا چاہتے تھے لیکن مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت نے ثنا للہ زہری
کو روک کر جلسے کو گڑبڑ سے بچا لیا۔پی ڈی ایم کے ذرائع کے مطابق ماما قدیر بلوچ بھی کوئٹہ کے جلسے سے خطاب کرنا چاہتے تھے جب ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوئی تو ان سے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے خلاف ویڈیو پیغام جاری کروا دیا گیا۔ وہ جو ماما قدیر کو غدار کہتے تھے
وہی میڈیا پر ان کے اس ویڈیو پیغام کو بھی اجاگر کراتے رہے۔ پلک جھپکتے میں غدار غدار نہ رہا بلکہ پیار بن گیا۔ ماما قدیر کو غداری کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لئے بڑی محنت کرنا پڑی۔انہوں نے اپنا بیٹا کھویا اور کوئٹہ سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا لیکن عمران خان کی
حکومت نے غدار بنانا بڑا آسان بنا دیا ہے۔ آپ صرف عمران حکومت پر ذرا سی تنقید کر دیں، آپ کو پلک جھپکتے میں پاکستان کا دشمن بنا دیا جائے گا لہذا اس عمرانی دور میں پاکستان غداروں کا نشیمن بن چکا ہے اور اگلی مردم شماری میں محبِ وطنوں کے اقلیت بننے کا خطرہ بہت بڑھ گیا ہے۔