اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی ، اینکر پرسن اور کالم نگار حامد میر اپنے ایک کالم ”غداروں کا نشیمن ” میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔کوئٹہ جلسے کے بعد حکومتی ترجمان ضرورت سے زیادہ غضب ناک نظر آتے ہیں۔ اِس جلسے سے حکومت کی بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔
سب سے بڑی امید یہ تھی کہ بلاول بھٹو زرداری اِس جلسے سے خطاب نہیں کریں گے۔دوسری بڑی امید یہ تھی کہ نواز شریف بھی جلسے سے خطاب نہ کر پائیں گے۔ تیسری امید یہ تھی کہ اِس جلسے میں بی این پی مینگل اور مسلم لیگ ن کا جھگڑا ہو جائے گا اور بی این پی مینگل پی ڈی ایم سے نکل جائے گی لیکن کوئی بھی امید پوری نہ ہوئی۔گوجرانوالہ اور کراچی کے جلسوں میں کرسیاں لگائی گئی تھیں لیکن کوئٹہ کے جلسے میں کرسیاں نہیں لگائی گئی تھیں، اِس لئے گھاس کی پتیاں ذرا زیادہ نظر آ رہی تھیں۔ خطرے کے باوجود گھاس کی پتیوں کا جوش و خروش دیدنی تھا اور اِس جوش میں اس وقت مزید اضافہ ہو گیا جب پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے قائد محمود خان اچکزئی نے نعرہ تکبیر بلند کیااور علامہ اقبال کا شعر پڑھا،غداروں کے جلسے میں نعرہ تکبیر کا بلند ہونا اور علامہ اقبال کا ذکر حکومتی ترجمانوں کیلئے اہم نہیں تھا۔ ان کیلئے تو یہ اہم تھا کہ شاہ اویس نورانی کی زبان سے آزاد پاکستان کی بجائے آزاد بلوچستان کا لفظ پھسل
گیا اور شبلی فراز نے پی ڈی ایم کو بھارت اور اسرائیل کا اتحادی قرار دے دیا۔دوسرے الفاظ میں پاکستان کے دشمنوں کو پاکستان کی گیارہ سیاسی و دینی جماعتوں کی قیادت اور حامی بطور اتحادی میسر آ چکے ہیں۔ 1971 میں تو صرف ایک لیڈر شیخ مجیب الرحمن اور
اس کی جماعت عوامی لیگ کو غدار قرار دیا جاتا تھا، 2020 میں ایک اور ایک مل کر گیارہ ہو چکے ہیں۔ پتا نہیں آج کا شیخ مجیب الرحمن اور جنرل یحییٰ خان کون ہے لیکن اگر حکومتی ترجمانوں کو درست تسلیم کر لیا جائے تو پاکستان میں گندم، چاول اور چینی کی کمی اور غداروں کی
افراط ہو چکی ہے بلکہ غدار پیدا کرنے میں پاکستان خود کفیل ہو چکا ہے۔ریاستِ پاکستان تحسین کی مستحق ہے کہ مہنگائی کے اِس دور میں غداری کا سرٹیفکیٹ بہت سستا کر دیا گیا ہے۔ بس آپ نواز شریف کی تقریر سن لیں یا کسی کو سنا دیں تو آپ کو غداری کا سرٹیفکیٹ بغیر مانگے ہی مل جائے
گا بلکہ آپ کی جیب میں ٹھونس دیا جائے گا اور اگر جیب نہ ملے تو ایف آئی اے والے آپ کا فون نمبر ڈھونڈ کر واٹس ایپ پر کسی نوٹس کی شکل میں ملک دشمنی کا الزام آپ کی خدمت میں پیش کر کے اپنے سیاسی آقائوں کو خوش کرتے نظر آئیں گے۔نواز شریف کی تقریر روکنے کے لئے
نا صرف پورے شہر میں موبائل فون سروس بند کر دی گئی تھی بلکہ سیٹلائٹ سسٹم بھی جام کر دیا گیا۔ اربابِ اختیار صرف نواز شریف ہی نہیں بلکہ بلاول بھٹو زرداری کی ویڈیو لنک پر تقریر بھی روکنا چاہتے تھے تاکہ یہ تاثر دینا آسان ہو جائے کہ بلاول اور پی ڈی ایم کے راستے جدا ہونے والے ہیں۔ یہاں سردار اختر مینگل مسلم لیگ(ن) کے کام آئے۔ ان کے پاس دبئی کی ایک فون سِم تھی۔ اس فون کے ذریعے نواز شریف کی تقریر کوئٹہ کے جلسے میں پہنچ گئی اور یہی فون بلاول بھٹو زرداری کے بھی کام آیا۔