ادارے ہمارے اپنے ہیں مگر انہیں آئینی حدود میں کام کرنا چاہئے،عوام کا رخ کس جانب موڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ مولانافضل الرحمن کا تہلکہ خیز دعویٰ

17  اکتوبر‬‮  2020

کراچی(این این آئی)پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ اورجمعیت علماء اسلام کے امیرمولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ناجائز اور جعلی حکومت بدترین دھاندلی کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے،ادارے ہمارے اپنے ہیں مگر انہیں آئینی حدود میں کام کرنا چاہئے،جن سے شکوہ کررہے ہیں وہ بھی تو ہمارے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کی شب جامعہ فاروقیہ۔ٹو میں پریس کانفرنس

سے خطاب میں کیا۔اس موقع پر ان کے ہمراہ جے یوآئی پنجاب کے امیر ڈاکٹر عتیق الرحمن، صوبائی جنرل سیکریٹری مولانا راشد محمود سومرو، قاری محمد عثمان و دیگر بھی موجود تھے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ جامعہ فاروقیہ میں شہید کی تعزیت کے لیے آیا ہوں۔ڈاکٹر عادل خان کا قتل علمی دنیا کا بڑا نقصان ہے۔ مولانا ڈاکٹر عادل خان کی شہادت بہت بڑا سانحہ ہے، ان کی دینی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔ میرے لئے سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ شہادت سے ہفتہ دس دن قبل ان مسلسل ملاقاتیں ہوتی رہیں، اتنے قیمتی علما شہید ہوئے کہ آج تک کسی کے خلا کو کرنہیں کیا جا سکا۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عادل خان صاحب شہید کے سانحے پر کون سا دل ہوگا جو غمزدہ نہ ہو گا، کون سی آنکھ ہوگی جو اشک بار نہ ہوگی۔ مولانا عادل خان کی شہادت کا سانحہ صرف ان کے خاندان، جامعہ اور متعلقین کا غم نہیں پورے ایک جہاں اور ہم سب کا مشترکہ صدمہ ہے۔ کوئی قوم قبیلہ معاشرہ شخصیات کی اہمیت کا انکار نہیں کرتا لیکن کی امت کی بقا کی دار و مدار عقائد پر ہوتا ہے۔ایسے واقعات میں ہماری توجہ اس بات پر ہونی چاہئے کہ جو شخص جام شہادت نوش کرکے چلاگیا اس کی زندگی کا مقصد اور نصب العین کیا تھا، ہمیں ان اداروں، عمارتوں اور جامعات کے مستقبل کا بھی سوچنا ہوگا۔انہوں نے کہاکہ ایسی شخصیات کیوں گولیوں کا نشانہ بنتی ہیں۔شہر قائد ماضی میں بھی خون میں نہلایا گیا۔بڑے بڑے علما شہید

کردیئے گئے۔انہوں نے کہا کہ تفتیش میں اب تک کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔قاتلوں کی تصاویر بھی واضح ہیں مگر پھر بھی ان کی شناخت نہیں ہوسکی۔ عدم تحفظ کی فضا بنادی گئی ہے۔جامعہ فاروقیہ کو اب تک کوئی سیکورٹی نہیں دی گئی ہے۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ملک میں فرقہ وران فسادات کی کوشش کی گئی۔ قرارداد پاکستان کے نکات پر آج بھی سب اتفاق کرتے ہیں۔مختلف

مکاتب فکر کو آپس میں لڑانے کی سازش کسی اور کی ہے۔عوام کے دباؤ کا رخ کسی اور کی طرف موڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ملک کو چلانا ہے تو آئین اور ضابطوں پر عمل کرنا ہے۔ ہم انہیں پہچانتے ہیں مگر نام نہیں لے رہے۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ عوام حکومت سے مایوس ہوچکی ہے۔ تمام سیاستدانوں عوام کی آواز بن چکے ہیں۔حکومت کے اعصاب اتنے بڑے دباؤ کو برداشت

نہیں کرسکتی۔ناجائز اور جعلی حکومت بدترین دھاندلی کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے۔ اداروں سے گلہ کررہے ہیں تو اس لیے کہ وہ بھی ہمارے اپنے ہیں۔اداروں کو بھی خود کو متنازعہ نہیں بنانا چاہیے۔ سمندر کی موجیں مچھلیوں کو تھکا نہیں سکتیں۔ چھاؤں

میں رہنے والے دھوپ میں رہنے والوں سے مقابلہ نہیں کرسکتے۔انہوں نے کہا کہ ہر چیز کی ذمے داری سیاستدانوں پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ادارے ہمارے اپنے ہیں مگر انہیں آئینی حدود میں کام کرنا چاہیے۔جن سے شکوہ کررہے ہیں وہ بھی تو ہمارے ہیں۔

موضوعات:



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…