منگل‬‮ ، 28 جنوری‬‮ 2025 

لاہور سیالکوٹ موٹروے کیس ، ملزم عابد علی کو جیل کی سلاخوں میں پہنچانے کیلئے انسپکٹر ہوتے ہوئے ڈی ایس پی کی ڈیوٹی کی ، انسپکٹر حسنین حیدر نے آخری تین دن کیا کام نہیں کیا تھا ،یہ ہوتے ہیں اصل ہیروز ، ملک میں تالیاں ان لوگوں کیلئے بجنی چاہییں، انہیں ایوارڈ اور نقد انعام ملنا چاہیے

datetime 16  اکتوبر‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلا م آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )سینئر کالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم ’’عابد علی کیسے گرفتار ہوا؟‘‘ میں لکھتےہیں کہ۔۔۔عابد علی نے گرفتار ہونا ہی تھا اور یہ گرفتار ہو ہی گیا لیکن اس کہانی میں چند غیرمعمولی کردار اور چند غیر معمولی حقائق ہیں‘ ہمیں چاہیے ہم ان غیر معمولی حقائق پر ضرور توجہ دیں‘ پہلی حقیقت عابد علی کا بیک گراؤنڈ اور ریاست کی نالائقی ہے‘ اس کے خلاف 14 مقدمات ہیں‘

یہ دو مرتبہ گرفتار بھی ہوا اور جیل بھی گیا لیکن یہ اس کے باوجود ریاست کی نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔یہ وارداتیں کرتا رہا اور ریاست اس کے وجود تک سے ناواقف رہی‘ دوسرا یہ غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہے‘ یہ لوگ مزدوری کرتے ہیں‘ دوسروں کی بھینسوں کو چارہ ڈالتے ہیں ‘ یہ اس ملک میں آٹھ نو کروڑ ہیں اور ریاست ان آٹھ نو کروڑ عابد علی جیسے لوگوں کی جذباتی اور ذہنی حالت میں تبدیلی سے بھی واقف نہیں۔ان میں سے کون کس وقت خطرناک ہو جائے ہم نہیں جانتے‘ تیسرا اس ملک میں واردات کے بعد چھپنا کتنا آسان ہے‘ یہ موسٹ وانٹیڈ ہونے کے باوجود بسوں میں سفر کرتا رہا‘ یہ پیسوں اور کپڑوں کے بغیر بھی پورا مہینہ سروائیو کر گیا‘ یہ مانگ کر کھا لیتا تھا‘ یہ مزدوری کرتا رہا‘ لفٹ لے کر شہر شہر گھومتا رہا اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی اور چوتھا اس نے اس دوران صرف داڑھی بڑھا لی تھی اور یہ داڑھی اس کی محافظ بن گئی۔لوگ داڑھی کے پیچھے چھپے عابد علی کو نہ پہچان سکے‘ ہماری ریاست کو ان چاروں حقائق کو دیکھ اور سمجھ کر کوئی پالیسی بنانی ہو گی‘ ہم لوگ کیوں کسی اجنبی کو لفٹ دے دیتے ہیں اور کیوں شناختی کارڈ دیکھے بغیر لوگوں کو ملازمت دے دیتے ہیں؟ ہمیں سوچنا ہو گا۔ ہم اب غیر معمولی کرداروں کی طرف آتے ہیں۔ہمیں سی آئی اے ماڈل ٹاؤن کی ان 9 ٹیموں کے اہلکاروں کو میڈل بھی دینے چاہییں اور پروموشن بھی جو مسلسل ایک ماہ عابد علی کے رشتے داروں کے گھروں اور گلیوں میں ڈیوٹی دیتے رہے‘ وہ اہلکار اعزاز کے مستحق ہیں جو اس کے والد کے گھر کے باہر فروٹ اور چھلی کی ریڑھی لگا کر بیٹھے رہے اور وہ ڈی ایس پی حسنین حیدر بھی جو انسپکٹر ہوتے ہوئے ڈی ایس پی کی ڈیوٹی کرتا رہا۔جو ایک ماہ تین دن عابد علی کے پیچھے بھاگتا رہا اور جس نے ملزم کو جیل پہنچانے تک آخری تین دن کھانا کھایا اور نہ نیند لی‘ یہ لوگ اصل ہیروز ہیں‘ ملک میں تالیاں ان کے لیے بجنی چاہییں‘ ایوارڈ اور نقد انعام ان کو ملنے چاہییں لیکن آپ ہمارا کمال دیکھیے‘ حکومت مبارک باد عثمان بزدار اور عمران خان کو دے رہی ہے‘ شادیانے آئی جی کے لیے بج رہے ہیں‘ ہم بھی کیا لوگ ہیں۔

موضوعات:



کالم



ایک ہی راستہ بچا ہے


جنرل احسان الحق 2003ء میں ڈی جی آئی ایس آئی تھے‘…

دوسرے درویش کا قصہ

دوسرا درویش سیدھا ہوا‘ کمرے میں موجود لوگوں…

اسی طرح

بھارت میں من موہن سنگھ کو حادثاتی وزیراعظم کہا…

ریکوڈک میں ایک دن

بلوچی زبان میں ریک ریتلی مٹی کو کہتے ہیں اور ڈک…

خود کو کبھی سیلف میڈنہ کہیں

’’اس کی وجہ تکبر ہے‘ ہر کام یاب انسان اپنی کام…

20 جنوری کے بعد

کل صاحب کے ساتھ طویل عرصے بعد ملاقات ہوئی‘ صاحب…

افغانستان کے حالات

آپ اگر ہزار سال پیچھے چلے جائیں تو سنٹرل ایشیا…

پہلے درویش کا قصہ

پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں…

آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے

پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…

صفحہ نمبر 328

باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب…

آہ غرناطہ

غرناطہ انتہائی مصروف سیاحتی شہر ہے‘صرف الحمراء…