اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )سینئر کالم نگار سہیل وڑائچ اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔کہا جا رہا ہے کہ لاہور اور گوجرانوالہ میں بعض افسروں کی تعیناتی ہی اِس لیے کی گئی کہ وہ جلسے جلوسوں کو موثر انداز میں روک سکیں یا کم از کم محدود کر سکیں، دوسری طرف ن لیگ کے لیے
گوجرانوالہ کا جلسہ ایک ٹیسٹ کیس ہے، اُن کے گڑھ میں جلسہ اگر کمزور ہوا تو اپوزیشن کے سارے احتجاجی پروگرام پر اِس کا منفی اثر پڑے گا اور اگر جلسہ کامیاب ہوا تو ظاہر ہے اِس کا سیاسی پیغام اپوزیشن کے حق میں جائے گا۔حکومت کے حلقے اپنی تشویش کو جتنا بھی خفیہ رکھیں، احتجاجی تحریک اُن کے اعصاب پر اثر انداز تو ہو رہی ہے، جلسوں اور جلوسوں سے حکومت گرنے کا تو کوئی امکان نہیں لیکن بڑا جلسہ ہو جائے تو حکومت ہل جاتی ہے، عوامی موڈ ظاہر ہو جاتا ہے، اپوزیشن کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے، گلی محلے کے بحث مباحثے میں جان پڑ جاتی ہے اور یوں مردہ سیاست زندہ ہونے لگتی ہے۔اپوزیشن کی کوشش یہی ہوگی کہ وہ اکتوبر، نومبر اور دسمبر میں سیاسی ماحول کو گرما دے۔ حکومت کو اپوزیشن کا علاج سیاست سے کرنا چاہیے۔ عمران خان پارٹی کنونشن کر سکتے ہیں، کہیں کا دورہ کرکے جوابی حملہ کر سکتے ہیں۔