اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی ، اینکر پرسن اور کالم نگار حامد میر اپنے آج کے کالم ”غداری مبارک ” میں لکھتے ہیں کہ کوئی مانے یا نہ مانے، ہمارے ارد گرد جو کچھ بھی ہو رہا ہے بہت برا ہو رہا ہے۔ اپوزیشن کی قیادت کے خلاف بغاوت کے ایک مقدمے نے
صرف حکومت نہیں بلکہ پوری ریاست کے اندر چھپے ہوئے تضادات کو پوری دنیا کے سامنے لا پھینکا ہے۔ پاکستان میں اپوزیشن کی قیادت کے خلاف بغاوت کے الزامات اور مقدمات کوئی نئی بات نہیں لیکن جس تیزی کے ساتھ تھانہ شاہدرہ لاہور میں مسلم لیگ ن کی قیادت کیخلاف درج ہونے والا بغاوت کا مقدمہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کیلئے سامانِ رسوائی بنا ہے اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اِدھر مقدمہ درج ہوا، ادھر وزیراعظم صاحب نے مقدمے سے اعلانِ لاتعلقی کر دیا۔چلیں مان لیتے ہیں کہ امن و امان صوبائی مسئلہ ہے اور وفاقی حکومت کا براہِ راست ایسے مقدمات کے درج ہونے سے کوئی تعلق نہیں لیکن پنجاب کے آئینی سربراہ گورنر محمد سرور نے تو واضح طور پر کہہ دیا کہ وہ سیاسی لوگوں کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کے حق میں نہیں۔آگے چل کر حامد میر اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ دکھ اس بات کا ہے کہ عمران خان اپنے آپ کو بڑے فخر سے کشمیریوں کا سفیر قرار دیتے تھے لیکن بغاوت کے اس
مقدمے سے عالمی سطح پر کشمیر کے بارے میں پاکستان کا مقدمہ کمزور ہوا ہے۔ جس قسم کے الزامات بھارتی حکومت سید علی گیلانی، یاسین ملک اور میر واعظ عمر فاروق پر لگاتی ہے وہی الزام پاکستانی حکومت نے راجہ فاروق حیدر پر لگا دیا۔ اس مقدمے کا مرکزی ملزم سابق وزیراعظم
نوازشریف کو بنایا گیا۔عام لوگ کہتے ہیں کہ اگر جنرل پرویز مشرف آئین توڑنے کے باوجود غدار نہیں تو پھر یہاں کوئی غدار نہیں۔ جنرل ایوب خان نے جو الزام فاطمہ جناح پر لگایا تھا وہ الزام نواز شریف اور ان کے ساتھیوں پر لگ گیا ہے، اسی لئے اس مقدمے کے ملزمان ایک دوسرے کو مبارکبادیں دے رہے ہیں۔