اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی ، تجزیہ کار اور ینکر پرسن حامد میر اپنے آج کے کالم ”نوابزادہ سے مولانا تک” میں لکھتے ہیں کہ مجھے پہلے سے اندازہ تھا کہ لندن میں مقیم سابق وزیراعظم نواز شریف ہر صورت میں اپوزیشن جماعتوں کے نئے اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ
کا سربراہ مولانا فضل الرحمن کو بنوا کر رہیں گے۔ 3اکتوبر کو جب یہ اعلان سامنے آیا کہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ہوں گے تو مجھے اکتوبر 2002میں نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم کے ساتھ اسلام آباد میں ہونے والی ایک ملاقات یاد آ گئی جس کا موضوع مولانا فضل الرحمن تھے۔2002کے انتخابات میں جنرل پرویز مشرف کی بنائی گئی مسلم لیگ (ق) سادہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔ نوابزادہ صاحب نے پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سمیت دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر لیا اور مشرف مخالف جماعتوں کو قائل کر لیا کہ اگر مولانا فضل الرحمن کو وزارتِ عظمی کا امیدوار بنایا جائے تو ناصرف وفاق میں بلکہ سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھی مشرف مخالف اتحاد کی حکومت قائم ہو جائے گی۔آصف علی زرداری اڈیالہ جیل راولپنڈی میں قید تھے لیکن مولانا فضل الرحمن کو وزیراعظم بنانے پر راضی تھے۔ دبئی میں مقیم بینظیر بھٹو قائل نہ ہو پارہی تھیں۔
نوابزادہ نصراللہ خان مجھے بتا رہے تھے کہ اگر مولانا فضل الرحمن وزیراعظم بن گئے تو بینظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں کی پاکستان واپسی ممکن ہو جائے گی اور آخر کار ہم جنرل پرویز مشرف کو بھی نکال باہر کریں گے۔میں نے بڑی سادگی سے پوچھا کہ نوابزادہ صاحب ایم ایم اے
کو کچھ لوگ ملا ملٹری الائنس کیوں کہتے ہیں؟ نوابزادہ صاحب نے قدرے تلخ لہجے میں کہا کہ جب پیپلز پارٹی کو ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق سے لڑنا تھا تو اس وقت بیگم نصرت بھٹو صاحبہ نے مجھے کہا کہ مولانا مفتی محمود کو بھی بحالی جمہوریت کی تحریک میں شامل کریں اور مولانا صاحب
راضی بھی ہو گئے لیکن 14اکتوبر 1980کو ان کا انتقال ہوگیا۔ ان کے برخوردار مولانا فضل الرحمن نے اپنے والد کے وعدے کا پاس رکھا اور جب ایم آر ڈی بنی تو وہ نہ صرف اس میں شامل ہوئے بلکہ انہوں نے قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔نوابزادہ صاحب نے کہا کہ 1988میں جب
آئی جے آئی بنائی گئی تو مولانا فضل الرحمن سے رابطہ کیا گیا لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ ایم آر ڈی کا حصہ بننے پر جمعیت علما اسلام میں گروپ بندی ہو گئی، آئی جے آئی میں مولانا سمیع الحق چلے گئے، مولانا فضل الرحمن نے انکار کر دیا۔ اب اگر 2002کے انتخابات میں مولانا فضل الرحمن
نے بڑی کامیابی حاصل کرلی ہے تو اسے ملا ملٹری الائنس کہنا زیادتی ہے۔ پھر نوابزادہ صاحب بتانے لگے کہ 1967میں جنرل ایوب خان کے خلاف پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے نام سے اتحاد بنایا گیا تو انہیں پہلی دفعہ کسی اتحاد کا سربراہ بنایا گیا تھا۔اس اتحاد میں عوامی لیگ شامل نہ تھی۔
کچھ عرصہ کے بعد انہوں نے اس اتحاد میں عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی کو بھی شامل کرلیا اور اس اتحاد کا نام ڈیمو کریٹک ایکشن کمیٹی رکھا گیا۔ اس اتحاد کے قیام کا اعلان 8جنوری 1969کو ہوا اور جنرل ایوب خان نے 25مارچ 1969کو استعفے کا اعلان کر دیا۔ نوابزادہ صاحب بار بار کہہ رہے
تھے کہ میں نے ایوب، یحیی اور ضیا کے زوال میں اہم کردار ادا کیا، اب میں مشرف کو نکال کر مرنا چاہتا ہوں لیکن اس کیلئے مولانا فضل الرحمن کو وزیراعظم بنانا ضروری ہے۔مولانا فضل الرحمن 2002میں وزیراعظم نہ بن سکے اور کچھ عرصے کے بعد نوابزادہ نصراللہ خان اس دنیا سے چلے گئے۔